احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

28: باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُخْدَعُ فِي الْبَيْعِ
باب: جسے بیع میں دھوکہ دے دیا جاتا ہو وہ کیا کرے؟
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1250
حدثنا يوسف بن حماد البصري، حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى، عن سعيد، عن قتادة، عن انس، ان رجلا كان في عقدته ضعف، وكان يبايع، وان اهله اتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، احجر عليه، فدعاه نبي الله صلى الله عليه وسلم فنهاه، فقال: يا رسول الله، إني لا اصبر عن البيع، فقال: " إذا بايعت فقل: هاء وهاء، ولا خلابة ". قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابن عمر. وحديث انس حديث حسن صحيح غريب، والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم، وقالوا: الحجر على الرجل الحر في البيع والشراء إذا كان ضعيف العقل، وهو قول: احمد، وإسحاق، ولم ير بعضهم ان يحجر على الحر البالغ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی خرید و فروخت کرنے میں بودا ۱؎ تھا اور وہ (اکثر) خرید و فروخت کرتا تھا، اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کو (خرید و فروخت سے) روک دیجئیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور اسے اس سے منع فرما دیا۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بیع سے باز رہنے پر صبر نہیں کر سکوں گا، آپ نے فرمایا: (اچھا) جب تم بیع کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو اور کوئی دھوکہ دھڑی نہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ آزاد شخص کو خرید و فروخت سے اس وقت روکا جا سکتا ہے جب وہ ضعیف العقل ہو، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۴- اور بعض لوگ آزاد بالغ کو بیع سے روکنے کو درست نہیں سمجھتے ہیں ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع 68 (3501)، سنن النسائی/البیوع 12 (4490)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 24 (2354)، (تحفة الأشراف: 1175)، و مسند احمد 3/217) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ حبان بن منقذ بن عمرو انصاری تھے اور ایک قول کے مطابق اس سے مراد ان کے والد تھے ان کے سر میں ایک غزوے کے دوران جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑا تھا پتھر سے شدید زخم آ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے حافظے اور عقل میں کمزوری آ گئی تھی اور زبان میں بھی تغیر آ گیا تھا لیکن ابھی تمیز کے دائرہ سے خارج نہیں ہوئے تھے۔
۲؎: مطلب یہ ہے کہ دین میں دھوکہ و فریب نہیں کیونکہ دین تو نصیحت وخیر خواہی کا نام ہے۔
۳؎: ان کا کہنا ہے کہ یہ حبان بن منقذ کے ساتھ خاص تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2354)

Share this: