احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

63: باب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ ابْنِ صَائِدٍ
باب: ابن صائد (ابن صیاد) کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2246
حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا عبد الاعلى، عن الجريري، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: " صحبني ابن صائد إما حجاجا، وإما معتمرين، فانطلق الناس وتركت انا وهو، فلما خلصت به اقشعررت منه واستوحشت منه مما يقول الناس فيه، فلما نزلت، قلت له: ضع متاعك حيث تلك الشجرة، قال: فابصر غنما فاخذ القدح فانطلق، فاستحلب ثم اتاني بلبن، فقال لي: يا ابا سعيد، اشرب، فكرهت ان اشرب من يده شيئا لما يقول الناس فيه، فقلت له: هذا اليوم يوم صائف، وإني اكره فيه اللبن، قال لي: يا ابا سعيد، هممت ان آخذ حبلا فاوثقه إلى شجرة ثم اختنق لما يقول الناس لي، وفي ارايت من خفي عليه حديثي فلن يخفى عليكم، الستم اعلم الناس بحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم يا معشر الانصار، الم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم إنه كافر وانا مسلم، الم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم إنه عقيم لا يولد له وقد خلفت ولدي بالمدينة، الم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يدخل او لا تحل له مكة والمدينة، الست من اهل المدينة وهو ذا انطلق معك إلى مكة، فوالله ما زال يجيء بهذا حتى قلت فلعله مكذوب عليه، ثم قال: يا ابا سعيد، والله لاخبرنك خبرا حقا، والله إني لاعرفه واعرف والده واعرف اين هو الساعة من الارض، فقلت: تبا لك سائر اليوم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حج یا عمرہ میں ابن صائد (ابن صیاد) میرے ساتھ تھا، لوگ آگے چلے گئے اور ہم دونوں پیچھے رہ گئے، جب میں اس کے ساتھ اکیلے رہ گیا تو لوگ اس کے بارے میں جو کہتے تھے اس کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اور اس سے مجھے خوف محسوس ہونے لگا، چنانچہ جب میں سواری سے اترا تو اس سے کہا: اس درخت کے پاس اپنا سامان رکھ دو، پھر اس نے کچھ بکریوں کو دیکھا تو پیالہ لیا اور جا کر دودھ نکال لایا، پھر میرے پاس دودھ لے آیا اور مجھ سے کہا: ابوسعید! پیو، لیکن میں نے اس کے ہاتھ کا کچھ بھی پینا پسند نہیں کیا، اس وجہ سے جو لوگ اس کے بارے میں کچھ کہتے تھے (یعنی دجال ہے) چنانچہ میں نے اس سے کہا: آج کا دن سخت گرمی کا ہے اس لیے میں آج دودھ پینا بہتر نہیں سمجھتا، اس نے کہا: ابوسعید! میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی سے اپنے آپ کو اس درخت سے باندھ لوں اور گلا گھونٹ کر مر جاؤں یہ اس وجہ سے کہ لوگ جو میرے بارے میں کہتے ہیں، بدگمانی کرتے ہیں، آپ بتائیے لوگوں سے میری باتیں بھلے ہی چھپی ہوں مگر آپ سے تو نہیں چھپی ہیں؟ انصار کی جماعت! کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سب سے بڑے جانکار نہیں ہیں؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دجال کے بارے میں) یہ نہیں فرمایا ہے کہ وہ کافر ہے؟ جب کہ میں مسلمان ہوں، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ بانجھ ہے؟ اس کی اولاد نہیں ہو گی، جب کہ میں نے مدینہ میں اپنی اولاد چھوڑی ہے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہو گا؟ کیا میں مدینہ کا نہیں ہوں؟ اور اب آپ کے ساتھ چل کر مکہ جا رہا ہوں، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اللہ کی قسم! وہ ایسی ہی دلیلیں پیش کرتا رہا یہاں تک کہ میں کہنے لگا: شاید لوگ اس کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں، پھر اس نے کہا: ابوسعید! اللہ کی قسم! اس کے بارے میں آپ کو سچی بات بتاؤں؟ اللہ کی قسم! میں دجال کو جانتا ہوں، اس کے باپ کو جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اس وقت زمین کے کس خطہٰ میں ہے تب میں نے کہا: تمہارے لیے تمام دن تباہی ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الفتن 19 (2927/91) (تحفة الأشراف: 4328) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی جو دلائل تم نے پیش کئے ان کی بنیاد پر تمہارے متعلق میں نے جو حسن ظن قائم کیا تھا تمہاری اس آخری بات کو سن کر میرا حسن ظن جاتا رہا اور مجھے تجھ سے بدگمانی ہو گئی (شاید یہ اس کے ذہنی مریض ہونے کی وجہ سے تھا، یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو اس کی اول فول باتوں کی وجہ سے دجال تک سمجھنے لگے)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: