احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

97: باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الإِقْعَاءِ فِي السُّجُودِ
باب: سجدوں کے درمیان اقعاء کی کراہت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 282
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا عبيد الله بن موسى، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا علي احب لك ما احب لنفسي واكره لك ما اكره لنفسي لا تقع بين السجدتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه من حديث علي إلا من حديث ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، وقد ضعف بعض اهل العلم الحارث الاعور، والعمل على هذا الحديث عند اكثر اهل العلم يكرهون الإقعاء، قال: وفي الباب عن عائشة، وانس، وابي هريرة.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی! میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے کرتا ہوں، اور وہی چیز ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہوں۔ تم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء ۱؎ نہ کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہم اسے علی کی حدیث سے صرف ابواسحاق سبیعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں، انہوں نے حارث سے اور حارث نے علی سے روایت کی ہے،
۲- بعض اہل علم نے حارث الاعور کو ضعیف قرار دیا ہے ۲؎،
۳- اس باب میں عائشہ، انس اور ابوہریرہ سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اکثر اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ وہ اقعاء کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 22 (894)، (تحفة الأشراف: 10041) (ضعیف) (سند میں حارث اعور سخت ضعیف ہے)

وضاحت: ۱؎: اقعاء کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ دونوں سرین زمین سے چپکے ہوں اور دونوں رانیں کھڑی ہوں اور دونوں ہاتھ زمین پر ہوں یہی اقعاء کلب ہے اور یہی وہ اقعاء ہے جس کی ممانعت آئی ہے، دوسری قسم یہ ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان قدموں کو کھڑا کر کے سرین کو دونوں ایڑیوں پر رکھ کر بیٹھے، اس صورت کا ذکر ابن عباس کی حدیث میں ہے جس کی تخریج مسلم اور ابوداؤد نے بھی کی ہے، اور یہ صورت جائز ہے، بعض نے اسے بھی منسوخ شمار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ابن عباس کو اس نسخ کا علم نہ ہو سکا ہو، لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق ممکن ہے، صحیح قول یہ ہے کہ اقعاء کی یہ صورت جائز ہے اور افضل سرین پر بیٹھنا ہے اس لیے کہ زیادہ تر آپ کا عمل اسی پر رہا ہے اور کبھی کبھی آپ نے جو اقعاء کیا وہ یا تو کسی عذر کی وجہ سے کیا ہو گا یا بیان جواز کے لیے کیا ہو گا۔
۲؎: حارث اعور کی وجہ سے یہ روایت تو ضعیف ہے مگر اس باب کی دیگر احادیث صحیح ہیں جن کا ذکر مولف نے «وفی الباب» کر کے کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (894 و 895) // ضعيف الجامع الصغير (6400) ، المشكاة (903) //

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / جه 894 ¤ الحارث الأعور ضعیف (د 908) وفيه علة أخري وحديث مسلم (498) والحاكم (272/1) يغني عنه .

Share this: