احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

53: باب وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ
باب: سورۃ النجم سے بعض آیات کی تفسیر۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3276
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن مالك بن مغول، عن طلحة بن مصرف، عن مرة، عن عبد الله، قال: لما بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم سدرة المنتهى، قال: " انتهى إليها ما يعرج من الارض، وما ينزل من فوق "، قال: فاعطاه الله عندها ثلاثا لم يعطهن نبيا كان قبله، فرضت عليه الصلاة خمسا، واعطي خواتيم سورة البقرة، وغفر لامته المقحمات ما لم يشركوا بالله شيئا، قال ابن مسعود: إذ يغشى السدرة ما يغشى سورة النجم آية 16، قال: السدرة في السماء السادسة، قال سفيان: فراش من ذهب، واشار سفيان بيده فارعدها، وقال غير مالك بن مغول: إليها ينتهي علم الخلق لا علم لهم بما فوق ذلك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (معراج کی رات) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو کہا: یہی وہ آخری جگہ ہے جہاں زمین سے چیزیں اٹھ کر پہنچتی ہیں اور یہی وہ بلندی کی آخری حد ہے جہاں سے چیزیں نیچے آتی اور اترتی ہیں، یہیں اللہ نے آپ کو وہ تین چیزیں عطا فرمائیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں فرمائی تھیں، (۱) آپ پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں، (۲) سورۃ البقرہ کی «خواتیم» (آخری آیات) عطا کی گئیں، (۳) اور آپ کی امتیوں میں سے جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا، ان کے مہلک و بھیانک گناہ بھی بخش دیئے گئے، (پھر) ابن مسعود رضی الله عنہ نے آیت «إذ يغشى السدرة ما يغشى» ڈھانپ رہی تھی سدرہ کو جو چیز ڈھانپ رہی تھی (النجم: ۱۶)، پڑھ کر کہا «السدرہ» (بیری کا درخت) چھٹے آسمان پر ہے، سفیان کہتے ہیں: سونے کے پروانے ڈھانپ رہے تھے اور سفیان نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے انہیں چونکا دیا (یعنی تصور میں چونک کر ان پروانوں کے اڑنے کی کیفیت دکھائی) مالک بن مغول کے سوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہیں تک مخلوق کے علم کی پہنچ ہے اس سے اوپر کیا کچھ ہے کیا کچھ ہوتا ہے انہیں اس کا کچھ بھی علم اور کچھ بھی خبر نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإیمان 76 (173)، سنن النسائی/الصلاة 1 (452) (تحفة الأشراف: 9548)، و مسند احمد (1/387، 422) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: