احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

78: باب مَا جَاءَ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ
باب: رکوع کے وقت دونوں ہاتھ اٹھانے (رفع یدین) کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 255
حدثنا قتيبة، وابن ابي عمر، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا افتتح الصلاة يرفع يديه حتى يحاذي منكبيه وإذا ركع وإذا رفع راسه من الركوع " وزاد ابن ابي عمر في حديثه، وكان " لا يرفع بين السجدتين ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے، اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے (تو بھی اسی طرح دونوں ہاتھ اٹھاتے) ۱؎۔ ابن ابی عمر (ترمذی کے دوسرے استاذ) نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے، دونوں سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان 83 (735)، و84 (736)، و85 (738)، و86 (739)، صحیح مسلم/الصلاة 9 (390)، سنن ابی داود/ الصلاة 116 (771)، سنن النسائی/الافتتاح 1 (877، 878، 879)، و86 (1026)، والتطبیق 19 (1058)، و21 (1060)، و37 (1089)، و85 (1155)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 15 (858)، (تحفة الأشراف: 6816)، موطا امام مالک/الصلاة 4 (16)، مسند احمد (2/8، 18، 44، 45، 47، 63، 100، 147)، سنن الدارمی/الصلاة 41 (1485)، و71 (1347) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مسنون ہے اور بعض حدیثوں سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی رفع یدین کرنا ثابت ہے، صحابہ کرام اور تابعین عظام میں زیادہ تر لوگوں کا اسی پر عمل ہے، خلفاء راشدین اور عشرہ مبشرہ سے بھی رفع یدین ثابت ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین کی حدیثیں منسوخ ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ رفع یدین کی حدیثیں ایسے صحابہ سے بھی مروی ہیں جو آخر میں اسلام لائے تھے مثلاً وائل بن حجر ہیں جو غزوہ تبوک کے بعد ۹ ھ میں داخل اسلام ہوئے ہیں، اور یہ اپنے اسلام لانے کے دوسرے سال جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو وہ سخت سردی کا زمانہ تھا انہوں نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ کپڑوں کے نیچے سے رفع یدین کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (858)

Share this: