احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

29: باب مَنَاقِبِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضى الله عنه
باب: عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3758
حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن يزيد بن ابي زياد، عن عبد الله بن الحارث، حدثني عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب، ان العباس بن عبد المطلب دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم مغضبا وانا عنده، فقال: " ما اغضبك ؟ " , قال: يا رسول الله ما لنا ولقريش إذا تلاقوا بينهم تلاقوا بوجوه مبشرة، وإذا لقونا لقونا بغير ذلك، قال: فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احمر وجهه، ثم قال: " والذي نفسي بيده لا يدخل قلب رجل الإيمان حتى يحبكم لله ولرسوله، ثم قال: يا ايها الناس من آذى عمي فقد آذاني , فإنما عم الرجل صنو ابيه ". قال: هذا حسن صحيح.
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے بیان کیا کہ عباس بن عبدالمطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غصہ کی حالت میں آئے، میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ نے پوچھا: تم غصہ کیوں ہو؟ وہ بولے: اللہ کے رسول! قریش کو ہم سے کیا (دشمنی) ہے کہ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو خوش روئی سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اور طرح سے ملتے ہیں، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں آ گئے، یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا، پھر آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تم سے محبت نہ کرے، پھر آپ نے فرمایا: اے لوگو! جس نے میرے چچا کو اذیت پہنچائی تو اس نے مجھے اذیت پہنچائی کیونکہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ۱؎ ہوتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماتقدم عندہ برقم 3607 (تحفة الأشراف: 11289) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابی زیاد ہاشمی کوفی ضعیف شیعی راوی ہے، کبر سنی کی وجہ سے حافظہ میں تغیر آ گیا تھا، اور دوسروں کی تلقین قبول کرنے لگے تھے، لیکن حدیث کا آخری ٹکڑا ’’ عم الرجل صنو أبيه ‘‘ ثابت ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے 3760، 3761)

وضاحت: ۱؎: حدیث میں «صنو» کا لفظ آیا ہے، «صنو» کی حقیقت یہ ہے کہ کسی درخت کے ایک ہی تنے سے اوپر دو یا تین یا چار شاخیں نکلتی ہیں، ان شاخوں کو آپس میں ایک دوسرے کا «صنو» کہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا قوله: " عم الرجل ... " فصحيح، المشكاة (6147) ، الصحيحة (806)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(3758) إسناده ضعيف ¤ يزيد بن أبى زياد: ضعيف (تقدم: 114)

سنن ترمذي حدیث نمبر: 3758M
حدثنا احمد الدورقي، اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن الجريري، عن عبدالله بن شقيق، قال: قلت لعائشة: اي اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كان احب إليه؟ قالت: ابوبكر، قلت: ثم من؟ قالت: ثم عمر، قلت: ثم من؟ قالت: ثم ابو عبيدة بن الجراح، قلت: ثم من؟ فسكتت.
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: صحابہ میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ کون محبوب تھا؟ کہا: ابوبکر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: عمر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: ابوعبیدہ بن الجراح، میں نے پوچھا: پھر کون؟ اس پر آپ خاموش رہیں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (102) (تحفة الأشراف: 16212) وقد أخرجه: مسند احمد (6/218) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: محبت کے مختلف وجوہ و اسباب ہوتے ہیں، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت بیٹی ہونے کے اعتبار سے اور ان کے زہد و عبادت کی وجہ سے تھی، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت زوجیت، دینی بصیرت اور فہم و فراست کے سبب تھی، ابوبکر و عمر سے محبت اسلام میں سبقت، دین کی بلندی، علم کی زیادتی، شریعت کی حفاظت اور اسلام کی تائید کے سبب تھی، شیخین کے کمالات و مناقب کسی پر پوشیدہ نہیں، اور ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے محبت اس لیے تھی کہ ان کے ہاتھ پر متعدد فتوحات اسلام ہوئیں رضی الله عنہم اجمعین۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا قوله: " عم الرجل ... " فصحيح، المشكاة (6147) ، الصحيحة (806)

Share this: