احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

9: باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَقْتُلُ ابْنَهُ يُقَادُ مِنْهُ أَمْ لاَ
باب: آدمی اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو کیا قصاص لیا جائے گا یا نہیں؟
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1399
حدثنا علي بن حجر , حدثنا إسماعيل بن عياش , حدثنا المثنى بن الصباح , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , عن سراقة بن مالك بن جعشم , قال: " حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقيد الاب من ابنه , ولا يقيد الابن من ابيه ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه من حديث سراقة إلا من هذا الوجه , وليس إسناده بصحيح , رواه إسماعيل بن عياش , عن المثنى بن الصباح , والمثنى بن الصباح يضعف في الحديث , وقد روى هذا الحديث , ابو خالد الاحمر , عن الحجاج بن ارطاة , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , عن عمر , عن النبي صلى الله عليه وسلم , وقد روي هذا الحديث , عن عمرو بن شعيب , مرسلا , وهذا حديث فيه اضطراب , والعمل على هذا عند اهل العلم , ان الاب إذا قتل ابنه لا يقتل به , وإذا قذف ابنه لا يحد.
سراقہ بن مالک بن جعشم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، (تو دیکھا) کہ آپ باپ کو بیٹے سے قصاص دلواتے تھے اور بیٹے کو باپ سے قصاص نہیں دلواتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سراقہ رضی الله عنہ کی اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اس کی سند صحیح نہیں ہے، اسے اسماعیل بن عیاش نے مثنیٰ بن صباح سے روایت کی ہے اور مثنیٰ بن صباح حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں،
۲- اس حدیث کو ابوخالد اُحمر نے بطریق: «عن الحجاج بن أرطاة عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے،
۴- یہ حدیث عمرو بن شعیب سے مرسلاً بھی مروی ہے، اس حدیث میں اضطراب ہے،
۴- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو بدلے میں (قصاصاً) اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور جب باپ اپنے بیٹے پر (زنا کی) تہمت لگائے تو اس پر حد قذف نافذ نہیں ہو گی۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3818) (ضعیف) (سند میں ’’ المثنی بن صباح ‘‘ ضعیف ہیں، اخیر عمر میں مختلط ہو گئے تھے، نیز حدیث میں بہت اضطراب ہے)

وضاحت: ۱؎: علماء کہتے ہیں کہ باپ اور بیٹے کے مابین تفریق کا سبب یہ ہے کہ باپ کے دل میں اولاد کی محبت کسی دنیوی منفعت کی لالچ کے بغیر ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ باپ کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد باقی زندہ اور خوش رہے، جب کہ اولاد کے دل میں پائی جانے والی محبت کا تعلق «الاما شاء اللہ» صرف دنیاوی منفعت سے ہے (یہ حدیث گرچہ سنداً ضعیف ہے مگر دیگر طرق سے مسئلہ ثابت ہے)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (7 / 272) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (2214) //

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(1399) إسناده ضعيف ¤ المثني ضعيف (تقدم :641)

Share this: