احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

201: باب مَا جَاءَ فِيمَنْ تَفُوتُهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ
باب: فجر سے پہلے کی دونوں سنتیں چھوٹ جائیں تو انہیں نماز فجر کے بعد پڑھنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 422
حدثنا محمد بن عمرو السواق البلخي، قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن جده قيس، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقيمت الصلاة فصليت معه الصبح، ثم انصرف النبي صلى الله عليه وسلم فوجدني اصلي، فقال: " مهلا يا قيس اصلاتان معا "، قلت: يا رسول الله إني لم اكن ركعت ركعتي الفجر، قال: " فلا إذا " قال ابو عيسى: حديث محمد بن إبراهيم لا نعرفه مثل هذا إلا من حديث سعد بن سعيد، وقال سفيان بن عيينة: سمع عطاء بن ابي رباح، من سعد بن سعيد هذا الحديث، وإنما يروى هذا الحديث مرسلا، وقد قال قوم من اهل مكة بهذا الحديث: لم يروا باسا ان يصلي الرجل الركعتين بعد المكتوبة قبل ان تطلع الشمس. قال ابو عيسى: وسعد بن سعيد هو اخ ويحيى بن سعيد الانصاري، قال: وقيس هو جد يحيى بن سعيد الانصاري ويقال: هو قيس بن عمر، ويقال: هو قيس بن قهد، وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل، محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس، وروى بعضهم هذا الحديث، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج فراى قيسا، وهذا اصح من حديث عبد العزيز، عن سعد بن سعيد.
قیس (قیس بن عمرو بن سہل) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور جماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی، تو میں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں، تو آپ نے فرمایا: قیس ذرا ٹھہرو، کیا دو نمازیں ایک ساتھ ۱؎ (پڑھنے جا رہے ہو؟) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا: تب کوئی حرج نہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہم محمد بن ابراہیم کی حدیث کو اس کے مثل صرف سعد بن سعید ہی کے طریق سے جانتے ہیں،
۲- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح نے بھی یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے،
۳- یہ حدیث مرسلاً بھی روایت کی جاتی ہے،
۴- اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کے مطابق کہا ہے کہ آدمی کے فجر کی فرض نماز پڑھنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے دونوں سنتیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،
۵- سعد بن سعید یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں، اور قیس یحییٰ بن سعید انصاری کے دادا ہیں۔ انہیں قیس بن عمرو بھی کہا جاتا ہے اور قیس بن قہد بھی،
۶- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس سے نہیں سنا ہے، بعض لوگوں نے یہ حدیث سعد بن سعید سے اور سعد نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو قیس کو دیکھا، اور یہ عبدالعزیز کی حدیث سے جسے انہوں نے سعد بن سعید سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 295 (1267)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 104 (1154)، (تحفة الأشراف: 11102)، مسند احمد (5/447) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ: فجر کی فرض کے بعد کوئی سنت نفل تو ہے نہیں، تو یہی سمجھا جائے گا کہ تم فجر کے فرض کے بعد کوئی فرض ہی پڑھنے جا رہے ہو۔
۲؎: یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھنا جائز ہے، اور امام ترمذی نے جو اس روایت کو مرسل اور منقطع کہا ہے وہ صحیح نہیں، کیونکہ یحییٰ بن سعید کے طریق سے یہ روایت متصلاً بھی مروی ہے، جس کی تخریج ابن خزیمہ نے کی ہے اور ابن خزیمہ کے واسطے سے ابن حبان نے بھی کی ہے، نیز انہوں نے اس کے علاوہ طریق سے بھی کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1151)

Share this: