احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

54: باب فِي مَنَاقِبِ مُصْعَبِ بْنِ عُمَيْرٍ رضى الله عنه
باب: مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3853
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن خباب، قال: هاجرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نبتغي وجه الله، فوقع اجرنا على الله فمنا من مات ولم ياكل من اجره شيئا، ومنا من اينعت له ثمرته فهو يهدبها، وإن مصعب بن عمير مات , ولم يترك إلا ثوبا كانوا إذا غطوا به راسه خرجت رجلاه، وإذا غطى بها رجليه خرج راسه , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " غطوا راسه واجعلوا على رجليه الإذخر ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ۱؎، ہم اللہ کی رضا کے خواہاں تھے تو ہمارا اجر اللہ پر ثابت ہو گیا ۲؎ چنانچہ ہم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے اجر میں سے (دنیا میں) کچھ بھی نہیں کھایا ۳؎ اور کچھ ایسے ہیں کہ ان کے امید کا درخت بار آور ہوا اور اس کے پھل وہ چن رہے ہیں، اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ایسے وقت میں انتقال کیا کہ انہوں نے کوئی چیز نہیں چھوڑی سوائے ایک ایسے کپڑے کے جس سے جب ان کا سر ڈھانپا جاتا تو دونوں پیر کھل جاتے اور جب دونوں پیر ڈھانپے جاتے تو سر کھل جاتا، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا سر ڈھانپ دو اور ان کے پیروں پر اذخر گھاس ڈال دو ۴؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز 27 (1276)، ومناقب الأنصار 45 (3897)، والمغازي 17 (4047)، و26 (4082)، والرقاق 7 (6432)، 16 (6448)، صحیح مسلم/الجنائز 13 (940)، سنن ابی داود/ الوصایا 11 (2876)، سنن النسائی/الجنائز 40 (1904) (تحفة الأشراف: 3514)، و مسند احمد (5/109، 112) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح أحكام الجنائز (57 - 58)

سنن ترمذي حدیث نمبر: 3853M
حدثنا هناد، حدثنا ابن إدريس، عن الاعمش، عن ابي وائل شقيق بن سلمة، عن خباب بن الارت نحوه.
ہم سے ہناد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، اور ابن ادریس نے اعمش سے، اعمش نے ابووائل شفیق بن سلمہ سے اور ابووائل نے خباب بن ارت رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی آپ کے حکم سے ہجرت کی، ورنہ ہجرت میں آپ کے ساتھ صرف ابوبکر رضی الله عنہ تھے، یا یہ مطلب ہے کہ ہم نے آپ کے آگے پیچھے ہجرت کی اور بالآخر سب مدینہ پہنچے۔
۲؎: یعنی اللہ کے اپنے اوپر آپ خود سے واجب کرنے پر، ورنہ آپ پر کون کوئی چیز واجب کر سکتا ہے، یا آپ نے ایسا اس لیے کہا کہ اللہ نے اس کا خود ہی وعدہ فرمایا ہے، اور اللہ کا وعدہ سچا پکا ہوتا ہے۔
۳؎: یعنی فتوحات سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا تو اموال غنیمت سے استفادہ کرنے کا ان کو موقع نہیں ملا، ورنہ صحابہ نے خاص مال غنیمت کی نیت سے ہجرت نہیں کی تھی۔
۴؎: چونکہ مصعب کا انتقال فراخی ہونے سے پہلے ہوا تھا اس لیے سرکاری بیت المال میں بھی اتنی گنجائش نہیں تھی کہ ان کے کفن دفن کا انتظام کیا جاتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح أحكام الجنائز (57 - 58)

Share this: