احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

33: باب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الْعِيدَيْنِ
باب: عیدین میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 533
حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر، عن ابيه، عن حبيب بن سالم، عن النعمان بن بشير، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرا في العيدين وفي الجمعة ب: سبح اسم ربك الاعلى و هل اتاك حديث الغاشية وربما اجتمعا في يوم واحد فيقرا بهما ". قال: وفي الباب عن ابي واقد، وسمرة بن جندب، وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث النعمان بن بشير حديث حسن صحيح. وهكذا روى سفيان الثوري، ومسعر، عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر نحو حديث ابي عوانة، واما سفيان بن عيينة فيختلف عليه في الرواية، يروى عنه عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر، عن ابيه، عن حبيب بن سالم، عن ابيه، عن النعمان بن بشير ولا نعرف لحبيب بن سالم رواية عن ابيه، وحبيب بن سالم هو مولى النعمان بن بشير. وروى عن النعمان بن بشير احاديث، وقد روي عن ابن عيينة، عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر نحو رواية هؤلاء، وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم: " انه كان يقرا في صلاة العيدين ب قاف، واقتربت الساعة " وبه يقول الشافعي.
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ میں «سبح اسم ربك الأعلى» اور «هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے، اور بسا اوقات دونوں ایک ہی دن میں آ پڑتے تو بھی انہی دونوں سورتوں کو پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوواقد، سمرہ بن جندب اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور اسی طرح سفیان ثوری اور مسعر نے بھی ابراہیم بن محمد بن منتشر سے ابو عوانہ کی حدیث کی طرح روایت کی ہے،
۴- رہے سفیان بن عیینہ تو ان سے روایت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان کی ایک سند یوں ہے: «عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر عن أبيه عن حبيب بن سالم عن أبيه عن النعمان بن بشير» ‏‏‏‏ اور ہم حبیب بن سالم کی کسی ایسی روایت کو نہیں جانتے جسے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہو۔ حبیب بن سالم نعمان بن بشیر کے آزاد کردہ غلام ہیں، انہوں نے نعمان بن بشیر سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔ اور ابن عیینہ سے ابراہیم بن محمد بن منتشر کے واسطہ سے ان لوگوں کی طرح بھی روایت کی گئی ہے ۲؎ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ عیدین کی نماز میں «سورة ق» اور «اقتربت الساعة» پڑھتے تھے ۳؎ اور یہی شافعی بھی کہتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة 16 (878)، سنن ابی داود/ الصلاة 242 (1122)، سنن النسائی/الجمعة 40 (1425)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 90 (1120)، و157 (1281)، موطا امام مالک/الجمعة 9 (19)، (تحفة الأشراف: 11612)، مسند احمد (4/270، 271، 277)، سنن الدارمی/الصلاة 203 (1609) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اس سند میں حبیب بن سالم اور نعمان بن بشیر کے درمیان حبیب کے والد کا اضافہ ہے، جو صحیح نہیں ہے۔
۲؎: یعنی: بغیر «عن أبیہ» کے اضافہ کے، یہ روایت آگے آ رہی ہے۔
۳؎: اس میں کوئی تضاد نہیں، کبھی آپ یہ سورتیں پڑھتے اور کبھی وہ سورتیں، بہرحال ان کی قراءت مسنون ہے، فرض نہیں، لیکن ایسا نہیں کہ بعض لوگوں کی طرح ان مسنون سورتوں کو پڑھے ہی نہیں۔ مسنون عمل کو بغیر کسی شرعی عذر کے جان بوجھ کر چھوڑنا سخت گناہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1119)

Share this: