احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

31: باب مَا جَاءَ فِي حَدِّ بُلُوغِ الرَّجُلِ وَمَتَى يُفْرَضُ لَهُ
باب: حد بلوغت کا ذکر اور غنیمت سے اس کو کب حصہ دیا جائے گا اس کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1711
حدثنا محمد بن الوزير الواسطي، حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، عن سفيان، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: " عرضت على رسول الله صلى الله عليه وسلم في جيش وانا ابن اربع عشرة فلم يقبلني، ثم عرضت عليه من قابل في جيش وانا ابن خمس عشرة فقبلني "، قال نافع: فحدثت بهذا الحديث عمر بن عبد العزيز، فقال: " هذا حد ما بين الصغير والكبير، ثم كتب ان يفرض لمن بلغ الخمس عشرة ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک لشکر میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، میں چودہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (جہاد میں لڑنے کے لیے) قبول نہیں کیا، پھر مجھے آپ کے سامنے آئندہ سال ایک لشکر میں پیش کیا گیا اور میں پندرہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (لشکر میں) قبول کر لیا، نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو عمر بن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: چھوٹے اور بڑے کے درمیان یہی حد ہے، پھر انہوں نے فرمان جاری کیا کہ جو پندرہ سال کا ہو جائے اسے مال غنیمت سے حصہ دیا جائے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم 1361 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: لڑکا یا لڑکی کی عمر سن ہجری سے جب پندرہ سال کی ہو جائے تو وہ بلوغت کی حد کو پہنچ جاتا ہے، اسی طرح سے زیر ناف بال نکل آنا اور احتلام کا ہونا بھی بلوغت کی علامات میں سے ہے، اور لڑکی کو حیض آ جائے تو یہ بھی بلوغت کی نشانی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2543)

سنن ترمذي حدیث نمبر: 1711M
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عبيد الله، نحوه بمعناه إلا انه قال: قال عمر بن عبد العزيز: " هذا حد ما بين الذرية والمقاتلة "، ولم يذكر انه كتب " ان يفرض "، قال ابو عيسى: حديث إسحاق بن يوسف، حديث حسن صحيح غريب من حديث سفيان الثوري.
اس سند سے عمر سے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث مروی ہے اور اس میں ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا: یہ چھوٹے اور لڑنے والے کے درمیان حد ہے، انہوں نے یہ نہیں بیان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز نے مال غنیمت میں سے حصہ متعین کرنے کا فرمان جاری کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اسحاق بن یوسف کی حدیث جو سفیان ثوری کی روایت سے آئی ہے، وہ حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 7903) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2543)

Share this: