احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

55: باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّوْمِ
باب: روزے کی فضیلت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 764
حدثنا حدثنا عمران بن موسى القزاز، حدثنا عبد الوارث بن سعيد، حدثنا علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن ربكم يقول: " كل حسنة بعشر امثالها إلى سبع مائة ضعف، والصوم لي وانا اجزي به، الصوم جنة من النار، ولخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح المسك، وإن جهل على احدكم جاهل وهو صائم فليقل: إني صائم ". وفي الباب عن معاذ بن جبل، وسهل بن سعد، وكعب بن عجرة، وسلامة بن قيصر، وبشير ابن الخصاصية واسم بشير زحم بن معبد، والخصاصية هي امه. قال ابو عيسى: وحديث ابي هريرة حديث حسن غريب من هذا الوجه.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب فرماتا ہے: ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ اور روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ جہنم کے لیے ڈھال ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے، اور اگر تم میں سے کوئی جاہل کسی کے ساتھ جہالت سے پیش آئے اور وہ روزے سے ہو تو اسے کہہ دینا چاہیئے کہ میں روزے سے ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں معاذ بن جبل، سہل بن سعد، کعب بن عجرہ، سلامہ بن قیصر اور بشیر بن خصاصیہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بشیر کا نام زحم بن معبد ہے اور خصاصیہ ان کی ماں ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13097) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 2 (1894)، و9 (1904)، واللباس 78 (5927)، والتوحید 35 (7492)، و50 (7538)، صحیح مسلم/الصیام 30 (1151)، سنن النسائی/الصیام 42 (2216-2221)، سنن ابن ماجہ/الصیام 1 (1638)، و21 (1691)، موطا امام مالک/الصیام 22 (58)، مسند احمد (2/232، 257، 266، 273، 443، 475، 477، 480، 501، 510، 516)، سنن الدارمی/الصوم 50 (1777)، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق۔

وضاحت: ۱؎: یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ اعمال سبھی اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں اور وہی ان کا بدلہ دیتا ہے پھر روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا کہنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ روزہ میں ریا کاری کا عمل دخل نہیں ہے جبکہ دوسرے اعمال میں ریا کاری ہو سکتی ہے کیونکہ دوسرے اعمال کا انحصار حرکات پر ہے جبکہ روزے کا انحصار صرف نیت پر ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ دوسرے اعمال کا ثواب لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ اس سے سات سو گنا تک ہو سکتا ہے لیکن روزہ کا ثواب صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ اللہ ہی اس کا ثواب دے گا دوسروں کے علم میں نہیں ہے اسی لیے فرمایا: «الصوم لي و أنا أجزي به»۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 57 - 58) ، صحيح أبي داود (2046) ، الإرواء (918)

Share this: