احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

4: باب مِنْهُ
باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2302
حدثنا واصل بن عبد الاعلى، حدثنا محمد بن فضيل، عن الاعمش، عن علي بن مدرك، عن هلال بن يساف، عن عمران بن حصين، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " خير الناس قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم ثلاثا، ثم يجيء قوم من بعدهم يتسمنون ويحبون السمن يعطون الشهادة قبل ان يسالوها "، قال ابو عيسى: وهذا حديث غريب من حديث الاعمش، عن علي بن مدرك، واصحاب الاعمش إنما رووا عن الاعمش، عن هلال بن يساف، عن عمران بن حصين، حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: سب سے اچھے لوگ میرے زمانہ کے ہیں (یعنی صحابہ)، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی تابعین)، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی اتباع تابعین) ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹا ہونا چاہیں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دیں گے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اعمش کے واسطہ سے علی بن مدرک کی روایت سے غریب ہے،
۲- اعمش کے دیگر شاگردوں نے «عن الأعمش عن هلال بن يساف عن عمران بن حصين» کی سند سے روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم 2221) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس سے صحابہ کرام کی فضیلت تابعین پر، اور تابعین کی فضیلت اتباع تابعین پر ثابت ہوتی ہے۔
۲؎: ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لفظ دو یا تین بار دہرایا، اگر تین بار دہرایا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے خود اپنا زمانہ مراد لیا، پھر صحابہ کا پھر تابعین کا، پھر اتباع تابعین کا، اور اگر آپ نے صرف دو بار فرمایا تو اس کا وہی مطلب ہے جو ترجمہ کے اندر قوسین میں واضح کیا گیا ہے۔
۳؎: اس حدیث سے از خود شہادت دینے کی مذمت ثابت ہوتی ہے، جب کہ حدیث نمبر ۲۱۹۵ سے اس کی مدح و تعریف ثابت ہے، تعارض اس طرح دفع ہو جاتا ہے کہ مذمت مطلقاً اور از خود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کر سکیں اور باطل طریقہ سے کھا پی سکیں اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر اسے ہضم کر سکں، معلوم ہوا کہ حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی شہادت مقبول اور بہتر وعمدہ ہے جب کہ حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی گئی شہادت قبیح اور بری ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح مضى (2334)

سنن ترمذي حدیث نمبر: 2302M
حدثنا وكيع، عن الاعمش، حدثنا هلال بن يساف، عن عمران بن حصين، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، وهذا اصح من حديث محمد بن فضيل، قال: ومعنى هذا الحديث عند بعض اهل العلم يعطون الشهادة قبل ان يسالوها إنما يعني: شهادة الزور، يقول: يشهد احدهم من غير ان يستشهد.
اس سند سے بھی عمران بن حصین سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اور یہ محمد بن فضیل کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
حدیث کے الفاظ «يعطون الشهادة قبل أن يسألوها» سے جھوٹی گواہی مراد ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ان کا کہنا ہے کہ گواہی طلب کیے بغیر وہ گواہی دیں گے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح مضى (2334)

Share this: