احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

10: باب وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ
باب: سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3086
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، ومحمد بن جعفر، وابن ابي عدي، وسهل بن يوسف، قالوا: حدثنا عوف بن ابي جميلة، حدثنا يزيد الفارسي، حدثنا ابن عباس، قال: قلت لعثمان بن عفان: ما حملكم ان عمدتم إلى الانفال وهي من المثاني، وإلى براءة وهي من المئين فقرنتم بينهما ولم تكتبوا بينهما سطر بسم الله الرحمن الرحيم، ووضعتموها في السبع الطول، ما حملكم على ذلك ؟ فقال عثمان: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مما ياتي عليه الزمان وهو تنزل عليه السور ذوات العدد، فكان إذا نزل عليه الشيء دعا بعض من كان يكتب فيقول: ضعوا هؤلاء الآيات في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا، وإذا نزلت عليه الآية فيقول ضعوا هذه الآية في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا، وكانت الانفال من اوائل ما انزلت بالمدينة، وكانت براءة من آخر القرآن، وكانت قصتها شبيهة بقصتها فظننت انها منها، فقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يبين لنا انها منها فمن اجل ذلك قرنت بينهما، ولم اكتب بينهما سطر بسم الله الرحمن الرحيم فوضعتها في السبع الطول "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح لا نعرفه إلا من حديث عوف، عن يزيد الفارسي، عن ابن عباس، ويزيد الفارسي هو من التابعين، قد روى عن ابن عباس غير حديث، ويقال هو يزيد بن هرمز، ويزيد الرقاشي هو يزيد بن ابان الرقاشي، وهو من التابعين ولم يدرك ابن عباس إنما روى عن انس بن مالك وكلاهما من التابعين من اهل البصرة، ويزيد الفارسي اقدم من يزيد الرقاشي.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آمادہ کیا کہ سورۃ الانفال کو جو «مثانی» میں سے ہے اور سورۃ برأۃ کو جو «مئین» میں سے ہے دونوں کو ایک ساتھ ملا دیا، اور ان دونوں سورتوں کے بیچ میں «بسم الله الرحمن الرحيم» کی سطر بھی نہ لکھی۔ اور ان دونوں کو «سبع طوال» (سات لمبی سورتوں) میں شامل کر دیا۔ کس سبب سے آپ نے ایسا کیا؟ عثمان رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر زمانہ آتا جا رہا تھا اور آپ پر متعدد سورتیں نازل ہو رہی تھیں، تو جب آپ پر کوئی آیت نازل ہوتی تو وحی لکھنے والوں میں سے آپ کسی کو بلاتے اور کہتے کہ ان آیات کو اس سورۃ میں شامل کر دو جس میں ایسا ایسا مذکور ہے۔ اور پھر جب آپ پر کوئی آیت اترتی تو آپ فرماتے اس آیت کو اس سورۃ میں رکھ دو جس میں اس اس طرح کا ذکر ہے۔ سورۃ الانفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں آنے کے بعد شروع شروع میں نازل ہوئی ہیں۔ اور سورۃ برأت قرآن کے آخر میں نازل ہوئی ہے۔ اور دونوں کے قصوں میں ایک دوسرے سے مشابہت تھی تو ہمیں خیال ہوا کہ یہ اس کا ایک حصہ (و تکملہ) ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتائے بغیر کہ یہ سورۃ اسی سورۃ کا جزو حصہ ہے اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ اس سبب سے ہم نے ان دونوں سورتوں کو ایک ساتھ ملا دیا اور ان دونوں سورتوں کے درمیان ہم نے «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں لکھا اور ہم نے اسے «سبع طوال» میں رکھ دیا (شامل کر دیا)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے ہم صرف عوف کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ یزید فارسی کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، اور یزید فارسی تابعین میں سے ہیں، انہوں نے ابن عباس سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ وہ یزید بن ہرمز ہیں۔ اور یزید رقاشی یہ یزید بن ابان رقاشی ہیں، یہ تابعین میں سے ہیں اور ان کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے۔ انہوں نے صرف انس بن مالک سے روایت کی ہے، اور یہ دونوں ہی بصرہ والوں میں سے ہیں۔ اور یزید فارسی، یزید رقاشی سے متقدم ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 125 (786) (تحفة الأشراف: 9819)، و مسند احمد (1/57، 69) (ضعیف) (سند میں یزید الفارسی البصری مقبول راوی ہیں یعنی متابعت کے وقت اور متابعت موجود نہیں ہے اس لیے لین الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (140) // عندنا برقم (168 / 786) //

Share this: