احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

182: باب مَا جَاءَ فِي الْقُنُوتِ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ
باب: نماز فجر میں قنوت پڑھنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 401
حدثنا قتيبة، ومحمد بن المثنى، قالا: حدثنا غندر محمد بن جعفر، عن شعبة، عن عمرو بن مرة، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن البراء بن عازب، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يقنت في صلاة الصبح والمغرب " قال: وفي الباب عن علي , وانس , وابي هريرة , وابن عباس , وخفاف بن ايماء بن رحضة الغفاري، قال ابو عيسى: حديث البراء حديث حسن صحيح، واختلف اهل العلم في القنوت في صلاة الفجر، فراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم القنوت في صلاة الفجر، وهو قول مالك , والشافعي، وقال احمد , وإسحاق: لا يقنت في الفجر إلا عند نازلة تنزل بالمسلمين، فإذا نزلت نازلة فللإمام ان يدعو لجيوش المسلمين.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فجر اور مغرب میں قنوت پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- براء کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، انس، ابوہریرہ، ابن عباس، اور خفاف بن ایماء بن رحضہ غفاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- فجر میں قنوت پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے فجر میں قنوت پڑھنے کی ہے، یہی مالک اور شافعی کا قول ہے،
۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ فجر میں قنوت نہ پڑھے، الا یہ کہ مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہوئی ہو تو ایسی صورت میں امام کو چاہیئے کہ مسلمانوں کے لشکر کے لیے دعا کرے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد 54 (678)، سنن ابی داود/ الصلاة 345 (1441)، سنن النسائی/التطبیق 29 (1077)، (تحفة الأشراف: 1782)، مسند احمد (4/299)، سنن الدارمی/الصلاة 216 (1638) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے شوافع نے فجر میں قنوت پڑھنا ثابت کیا ہے اور برابر پڑھتے ہیں، لیکن اس میں تو مغرب کا تذکرہ بھی ہے، اس میں کیوں نہیں پڑھتے؟ دراصل یہاں قنوت سے مراد قنوت نازلہ ہے جو بوقت مصیبت پڑھی جاتی ہے (اس سے مراد وتر والی قنوت نہیں ہے) رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم بوقت مصیبت خاص طور پر فجر میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے تھے، بلکہ بقیہ نمازوں میں بھی پڑھتے تھے، اور جب ضرورت ختم ہو جاتی تھی تو چھوڑ دیتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: