احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

12: (باب)
(حدیث سننے اور اسے روایت کرنے میں استعمال ہونے والے صیغے اور ان کے بارے میں محدثین کے مذاہب)
قال ابو عيسى: والقرائة على العالم إذا كان يحفظ ما يقرا عليه او يمسك اصله فيما يقرا عليه إذا لم يحفظ هو صحيح عند اهل الحديث مثل السماع.
‏‏‏‏ امام ترمذی کہتے ہیں: عالم پر حدیث پڑھنا اگر وہ ان پڑھی جانے والی احادیث کا حافظ ہے، یا اگر وہ حافظ حدیث نہیں ہے تو اس پر پڑھی جانے والی کتاب کی اصل اس کے ہاتھ میں ہے تو یہ اہل حدیث کے نزدیک سماع کی طرح صحیح ہے ۱؎۔

حدثنا حسين بن مهدي البصري، حدثنا عبدالرزاق، اخبرنا ابن جريج، قال: قرات على عطائ بن ابي رباح فقلت له: كيف اقول؟ فقال: قل:"حدثنا".
‏‏‏‏ ابن جریج کہتے ہیں: میں نے عطاء بن ابی رباح پر پڑھا تو ان سے کہا کہ میں کیسے کہوں؟ کہا: کہو «حدثنا» ہم سے (شیخ نے) اس حدیث کو بیان کیا۔

حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا علي بن الحسين بن واقد، عن ابي عصمة، عن يزيد النحوي، عن عكرمة: ان نفرا قدموا على ابن عباس من اهل الطائف بكتاب من كتبه فجعل يقرا عليهم فيقدم ويؤخر فقال: إني بلهت لهذه المصيبة؛ فاقرئوا علي؛ فإن إقراري به كقرائتي عليكم.
‏‏‏‏ عکرمہ کہتے ہیں: ابن عباس کے پاس طائف کی ایک جماعت آئی جن کے ہاتھ میں ابن عباس کی کتابوں میں سے ایک کتاب تھی، تو ابن عباس نے ان پر پڑھنا شروع کر دیا کبھی آگے سے پڑھتے اور کبھی پیچھے سے پڑھنے لگتے اور کہا: میں اس مصیبت سے عاجز ہوں، تم مجھ پر پڑھو، میرا اقرار ویسے ہی ہے جیسے میں تم پر پڑھوں۔

حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا علي بن الحسين بن واقد، عن ابيه، عن منصور بن المعتمر قال: إذا ناول الرجل كتابه آخر فقال: ارو هذا عني؛ فله ان يرويه.
‏‏‏‏ منصور بن معتمر کہتے ہیں: آدمی جب کسی کو اپنی کتاب ہاتھ میں پکڑا دے اور کہے کہ یہ مجھ روایت کرو تو اس کے لیے جائز ہے کہ اس کی روایت کرے (اس کو محدثین کی اصطلاح میں «مناولہ» کہتے ہیں)۔

و سمعت محمد بن إسماعيل يقول: سالت ابا عاصم النبيل عن حديث فقال: اقرا علي؛ فاحببت ان يقرا هو فقال: اانت لا تجيز القرائة، وقد كان سفيان الثوري، ومالك بن انس يجيزان القرائة؟!.
‏‏‏‏ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: میں نے ابوعاصم النبیل سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: مجھ پر پڑھو، میں نے یہ پسند کیا کہ وہ پڑھیں تو انہوں نے کہا: کیا تم قراءۃ (شیخ پر پڑھنے) کو جائز نہیں کہتے، جب کہ سفیان ثوری اور مالک بن انس شیخ پر قراءۃ کو جائز کہتے تھے!۔

حدثنا احمد بن الحسن، حدثنا يحيى بن سليمان الجعفي المصري، قال: قال عبدالله بن وهب ما قلت:"حدثنا"فهو ما سمعت مع الناس وما قلت:"حدثني"فهو ما سمعت وحدي وما قلت:"اخبرنا"فهو ما قرئ على العالم وانا شاهد، وما قلت:"اخبرني"فهو ما قرات على العالم يعني وانا وحدي.
‏‏‏‏ عبداللہ بن وہب کہتے ہیں: میں نے حدیث کی روایت میں «حدثنا» کا صیغہ استعمال کیا تو اس سے مراد وہ احادیث ہیں جن کو ہم نے لوگوں کے ساتھ سنا، اور جب میں «حدثنا» کہتا ہوں تو وہ میری تنہا مسموعات میں سے ہیں، اور جب «أخبرنا» کہتا ہوں تو وہ عالم حدیث پر پڑھی جانے والی احادیث ہیں، جن میں میں حاضر تھا، اور جب میں «اخبرنی» کہتا ہوں تو وہ میری عالم حدیث پر تنہا پڑھی ہوئی روایات ہوتی ہیں۔

وسمعت ابا موسى محمد بن المثنى يقول: سمعت يحيى بن سعيد القطان، يقول:"حدثنا"و"اخبرنا"واحد.
‏‏‏‏ یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: «حدثنا» اور «أخبرنا» دونوں ہم معنی لفظ ہیں۔

قال ابو عيسى: كنا عند ابي مصعب المديني فقرئ عليه بعض حديثه فقلت له: كيف نقول؟ فقال: قل: حدثنا ابو مصعب.
‏‏‏‏ ترمذی کہتے ہیں: ہم ابو مصعب کے پاس تھے، ان پر ان کی بعض احادیث کو پڑھا گیا تو میں نے ان سے کہا: ہم حدیث روایت کرتے وقت کون سا صیغہ استعمال کریں؟ کہا: کہو: «حدثنا ابو مصعب» یعنی ہم سے ابومصعب نے حدیث بیان کی۔

قال ابو عيسى: وقد اجاز بعض اهل العلم الإجازة إذا اجاز العالم لاحد ان يروي عنه شيئا من حديثه فله ان يروي عنه.
‏‏‏‏ امام ترمذی کہتے ہیں: بعض اہل علم نے اجازئہ حدیث کو جائز کہا ہے، جب عالم حدیث کسی کو اپنی کسی حدیث کی روایت کی اجازت دے تو اس (مستجیز) کے لیے جائز ہے کہ وہ مجیز (یعنی اجازئہ حدیث دینے والے شیخ) سے روایت کرے۔

حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، عن عمران بن حدير، عن ابي مجلز، عن بشير بن نهيك قال: كتبت كتابا عن ابي هريرة؛ فقلت: ارويه عنك؟ قال: نعم.
‏‏‏‏ بشیر بن نہیک کہتے ہیں: میں نے ابوہریرہ کی روایت سے ایک کتاب لکھی تو ان سے کہا کہ میں اسے آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں، روایت کرو۔

حدثنا محمد بن إسماعيل الواسطي، حدثنا محمد بن الحسن الواسطي، عن عوف الاعرابي، قال: قال رجل للحسن: عندي بعض حديثك ارويه عنك؟ قال: نعم.
‏‏‏‏ محمد بن اسماعیل واسطی نے ہم سے بیان کیا ان سے محمد بن الحسن واسطی نے بیان کیا وہ عوف اعرابی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حسن بصری سے کہا: میرے پاس آپ کی بعض احادیث ہیں، کیا میں انہیں آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں۔

قال ابو عيسى: ومحمد بن الحسن إنما يعرف بمحبوب بن الحسن، وقد حدث عنه غير واحد من الائمة.
‏‏‏‏ ترمذی کہتے ہیں: محمد بن الحسن محبوب بن الحسن کے نام سے معروف ہیں، ان سے کئی ائمہ نے روایت کی ہے۔

حدثنا الجارود بن معاذ، حدثنا انس بن عياض، عن عبيدالله بن عمر، قال: اتيت الزهري بكتاب؛ فقلت له: هذا من حديثك، ارويه عنك؟ قال: نعم.
‏‏‏‏ عبیداللہ بن عمر کہتے ہیں: زہری کے پاس میں ایک کتاب لے کر آیا اور ان سے عرض کیا کہ یہ آپ کی احادیث ہیں، کیا میں انہیں آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں۔

حدثنا ابو بكر، عن علي بن عبدالله، عن يحيى بن سعيد، قال: جاء ابن جريج إلى هشام بن عروة بكتاب، فقال: هذا حديثك ارويه عنك؟ فقال: نعم.
‏‏‏‏ یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: ابن جریج، ہشام بن عروہ کے پاس ایک کتاب لے کر آئے اور ان سے کہا یہ آپ کی احادیث ہیں، کیا میں انہیں آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں۔

قال يحيى: فقلت في نفسي: لاادري ايهما اعجب امرا؟.
‏‏‏‏ یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: میں نے اپنے جی میں کہا: مجھے نہ معلوم ہو سکا کہ دونوں صورتوں میں کون زیادہ تعجب خیز بات ہے۔

وقال علي: سالت يحيى بن سعيد عن حديث ابن جريج عن عطائ الخراساني؟ فقال: ضعيف؛ فقلت: إنه يقول:"اخبرني"! فقال: لا شيئ، إنما هو كتاب دفعه إليه.
‏‏‏‏ علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن سعید القطان سے ابن جریج کی عطا خراسانی سے روایت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: ضعیف ہے، میں نے کہا: وہ «أخبرنی» کہتے ہیں، کہا: بیکار بات ہے، یہ صرف کتاب ہے جو عطا نے ابن جریج کو دے دی تھی۔

Share this: