احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

14: باب مَا جَاءَ فِي سُؤَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاَثًا فِي أُمَّتِهِ
باب: امت کے لیے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تین دعاؤں کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2175
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا ابي، قال: سمعت النعمان بن راشد يحدث، عن الزهري، عن عبد الله بن الحارث، عن عبد الله بن خباب بن الارت، عن ابيه، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة فاطالها، قالوا: يا رسول الله، صليت صلاة لم تكن تصليها، قال: اجل " إنها صلاة رغبة ورهبة إني سالت الله فيها ثلاثا، فاعطاني اثنتين ومنعني واحدة، سالته ان لا يهلك امتي بسنة فاعطانيها، وسالته ان لا يسلط عليهم عدوا من غيرهم فاعطانيها، وسالته ان لا يذيق بعضهم باس بعض فمنعنيها "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وفي الباب عن سعد، وابن عمر.
خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار کافی لمبی نماز پڑھی، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسی نماز پڑھی ہے کہ اس سے پہلے ایسی نماز نہیں پڑھی تھی، آپ نے فرمایا: ہاں، یہ امید و خوف کی نماز تھی، میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگی ہیں، جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو کو قبول کر لیا اور ایک کو نہیں قبول کیا، میں نے پہلی دعا یہ مانگی کہ میری امت کو عام قحط میں ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ دعا قبول کر لی، میں نے دوسری دعا یہ کی کہ ان پر غیروں میں سے کسی دشمن کو نہ مسلط کرے، اللہ نے میری یہ دعا بھی قبول کر لی، میں نے تیسری دعا یہ مانگی کہ ان میں آپس میں ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ نہ چکھا تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہیں فرمائی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں سعد اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/قیام اللیل 16 (1639) (تحفة الأشراف: 3516)، و مسند احمد (5/108) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی میری دو دعائیں میری امت کے حق میں مقبول ہوئیں، اور تیسری دعا مقبول نہیں ہوئی، گویا یہ امت ہمیشہ اپنے لوگوں کے پھیلائے ہوئے فتنہ و فساد سے دوچار رہے گی، اور اس امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک، اور قتل کریں گے، اور حدیث کا مقصد یہ ہے کہ امت کے لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق نہ بنا لیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح صفة الصلاة

Share this: