احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: باب فِي الْقِيَامَةِ
باب: قیامت کے دن حساب اور بدلے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2415
حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن خيثمة، عن عدي بن حاتم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما منكم من رجل إلا سيكلمه ربه يوم القيامة وليس بينه وبينه ترجمان، فينظر ايمن منه فلا يرى شيئا إلا شيئا قدمه، ثم ينظر اشام منه فلا يرى شيئا إلا شيئا قدمه، ثم ينظر تلقاء وجهه فتستقبله النار "، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من استطاع منكم ان يقي وجهه حر النار ولو بشق تمرة فليفعل " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو جہنم کی گرمی سے اپنے چہرے کو بچانا چاہے تو اسے ایسا کرنا چاہیئے، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق 49 (6539)، والتوحید 24 (7443)، و36 (7512)، صحیح مسلم/الزکاة 20 (1016)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (185)، والزکاة 28 (1843) (تحفة الأشراف: 9852)، و مسند احمد (4/256) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی جہنم سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرے، اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے، اور نیک عمل کرتا رہے، کیونکہ یہ جہنم سے بچاؤ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (185)

سنن ترمذي حدیث نمبر: 2415M
حدثنا ابو السائب، حدثنا وكيع يوما بهذا الحديث، عن الاعمش، فلما فرغ وكيع من هذا الحديث , قال: من كان ها هنا من اهل خراسان فليحتسب في إظهار هذا الحديث بخراسان , لان الجهمية ينكرون هذا اسم ابي السائب سلم بن جنادة بن سلم بن خالد بن جابر بن سمرة الكوفي.
ابوسائب کہتے ہیں کہ ایک دن اس حدیث کو ہم سے وکیع نے اعمش کے واسطہ سے بیان کیا پھر جب وکیع یہ حدیث بیان کر کے فارغ ہوئے تو کہا: اہل خراسان میں سے جو بھی یہاں موجود ہوں انہیں چاہیئے کہ وہ اس حدیث کو خراسان میں بیان کر کے اور اسے پھیلا کر ثواب حاصل کریں۔
امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کیونکہ جہمیہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں ۲؎۔ ابوسائب کا نام سلمہ بن جنادہ بن سلم بن خالد بن جابر بن سمرہ کوفی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (صحیح)

وضاحت: ۲؎: جہمیہ اس حدیث کا انکار اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس میں کلام الٰہی کا اثبات ہے اور جہمیہ اس کے منکر ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (185)

Share this: