احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

70: باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُدَّثِّرِ
باب: سورۃ المدثر سے بعض آیات کی تفسیر۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3325
حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنها، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحدث عن فترة الوحي، فقال في حديثه: " بينما انا امشي سمعت صوتا من السماء فرفعت راسي، فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالس على كرسي بين السماء والارض، فجثثت منه رعبا فرجعت فقلت زملوني زملوني، فدثروني فانزل الله عز وجل: يايها المدثر { 1 } قم فانذر { 2 } إلى قوله والرجز فاهجر سورة المدثر آية 1 ـ 5 قبل ان تفرض الصلاة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر، وابو سلمة اسمه عبد الله.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ وحی موقوف ہو جانے کے واقعہ کا ذکر کر رہے تھے، آپ نے دوران گفتگو بتایا: میں چلا جا رہا تھا کہ یکایک میں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک آواز سنی، میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ فرشتہ جو (غار) حراء میں میرے پاس آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، رعب کی وجہ سے مجھ پر دہشت طاری ہو گئی، میں لوٹ پڑا (گھر آ کر) کہا: مجھے کمبل میں لپیٹ دو، تو لوگوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا، اسی موقع پر آیت «يا أيها المدثر قم فأنذر» سے «والرجز فاهجر» اے کپڑا اوڑھنے والے، کھڑے ہو جا اور لوگوں کو ڈرا، اور اپنے رب کی بڑائیاں بیان کر، اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر، اور ناپاکی کو چھوڑ دے (المدثر: ۱-۵)، تک نازل ہوئی، یہ واقعہ نماز فرض ہونے سے پہلے کا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث یحییٰ بن کثیر نے بھی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے واسطہ سے جابر سے بھی روایت کی ہے،
۳- اور ابوسلمہ کا نام عبداللہ ہے۔ (یہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے بیٹے تھے اور ان کا شمار فقہائے مدینہ میں ہوتا تھا)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الوحي 1 (4)، وبدء الخلق 7 (3238)، وتفسیر المدثر 2 (4922)، وتفسیر ’’ اقراء باسم ربک ‘‘ (4954)، و الأدب 118 (6214)، صحیح مسلم/الإیمان 73 (161) (تحفة الأشراف: 3151) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: