احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

15: باب
باب: فضائل ابوبکر رضی الله عنہ پر ایک اور باب
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3659
حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا ابو عوانة، عن عبد الملك بن عمير، عن ابن ابي المعلى، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب يوما , فقال: " إن رجلا خيره ربه بين ان يعيش في الدنيا ما شاء ان يعيش , وياكل في الدنيا ما شاء ان ياكل , وبين لقاء ربه فاختار لقاء ربه "، قال: فبكى ابو بكر، فقال اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: الا تعجبون من هذا الشيخ، إذ ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا صالحا خيره ربه بين الدنيا وبين لقاء ربه , فاختار لقاء ربه قال: فكان ابو بكر اعلمهم بما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: بل نفديك بآبائنا واموالنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من الناس احد امن إلينا في صحبته وذات يده من ابن ابي قحافة، ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت ابن ابي قحافة خليلا، ولكن ود وإخاء إيمان، ود وإخاء إيمان مرتين او ثلاثا , وإن صاحبكم خليل الله ". وفي الباب، عن ابي سعيد، وهذا حديث حسن غريب وقد روي هذا الحديث عن ابي عوانة، عن عبد الملك بن عمير بإسناد غير هذا، ومعنى قوله: امن إلينا يعني امن علينا.
ابومعلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا تو فرمایا: ایک شخص کو اس کے رب نے اختیار دیا کہ وہ دینا میں جتنا رہنا چاہے رہے اور جتنا کھانا چاہے کھا لے یا اپنے رب سے ملنے کو (ترجیح دے) تو اس نے اپنے رب سے ملنے کو پسند کیا، وہ کہتے ہیں: یہ سن کر ابوبکر رضی الله عنہ رو پڑے، تو صحابہ نے کہا: کیا تمہیں اس بوڑھے کے رونے پر تعجب نہیں ہوتا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیک بندے کا ذکر کیا کہ اس کے رب نے دو باتوں میں سے ایک کا اسے اختیار دیا کہ وہ دنیا میں رہے یا اپنے رب سے ملے، تو اس نے اپنے رب سے ملاقات کو پسند کیا۔ ابوبکر رضی الله عنہ ان میں سب سے زیادہ ان باتوں کو جاننے والے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر) ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: بلکہ ہم اپنے باپ دادا، اپنے مال سب کو آپ پر قربان کر دیں گے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی ایسا نہیں جو ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر میرا حق صحبت ادا کرنے والا ہو اور میرے اوپر اپنا مال خرچ کرنے والا ہو، اگر میں کسی کو خلیل (گہرا دوست) بناتا تو ابن ابی قحافہ کو دوست بناتا، لیکن (ہمارے اور ان کے درمیان) ایمان کی دوستی موجود ہے۔ یہ کلمہ آپ نے دو یا تین بار فرمایا، پھر فرمایا: تمہارا یہ ساتھی (یعنی خود) اللہ کا خلیل (دوست) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت آئی ہے اور یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث ابو عوانہ کے واسطہ سے عبدالملک بن عمیر سے ایک دوسری سند سے بھی آئی ہے، اور «أمن إلينا» میں «إلى»، «على» کے معنی میں ہے، یعنی مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12176) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابن ابی المعلی انصاری کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں: لا يعرف یعنی غیر معروف اور مجہول راوی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، امام ترمذی نے اس کی تحسین ابو سعید خدری کی حدیث کی وجہ سے کی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(3659) إسناده ضعيف ¤ عبد الملك بن عمير عنعن (وهو مدلس انظر طبقات المدلسين 3/84) وشيخه ” لم يسم ولا يعرف “ (تق:8488)

Share this: