احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

17: باب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الصَّلاَةِ إِذَا أَخَّرَهَا الإِمَامُ
باب: جب امام نماز دیر سے پڑھے تو اسے جلد پڑھ لینے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 176
حدثنا محمد بن موسى البصري، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن ابي عمران الجوني، عن عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر , قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " يا ابا ذر امراء يكونون بعدي يميتون الصلاة، فصل الصلاة لوقتها، فإن صليت لوقتها كانت لك نافلة وإلا كنت قد احرزت صلاتك ". وفي الباب عن عبد الله بن مسعود , وعبادة بن الصامت. قال ابو عيسى: حديث ابي ذر حسن، وهو قول غير واحد من اهل العلم يستحبون ان يصلي الرجل الصلاة لميقاتها إذا اخرها الإمام، ثم يصلي مع الإمام، والصلاة الاولى هي المكتوبة عند اكثر اهل العلم، وابو عمران الجوني اسمه: عبد الملك بن حبيب.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! میرے بعد کچھ ایسے امراء (حکام) ہوں گے جو نماز کو مار ڈالیں گے ۱؎، تو تم نماز کو اس کے وقت پر پڑھ لینا ۲؎ نماز اپنے وقت پر پڑھ لی گئی تو امامت والی نماز تمہارے لیے نفل ہو گی، ورنہ تم نے اپنی نماز محفوظ کر ہی لی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور عبادہ بن صامت رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۳- یہی اہل علم میں سے کئی لوگوں کا قول ہے، یہ لوگ مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی نماز اپنے وقت پر پڑھ لے جب امام اسے مؤخر کرے، پھر وہ امام کے ساتھ بھی پڑھے اور پہلی نماز ہی اکثر اہل علم کے نزدیک فرض ہو گی ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد 41 (648)، سنن ابی داود/ الصلاة 10 (431)، سنن النسائی/الإمامة 2 (779)، و55 (860)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 150 (1256)، (تحفة الأشراف: 11950)، مسند احمد (5/168، 169)، سنن الدارمی/الصلاة 26 (1264) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اسے دیر کر کے پڑھیں گے۔
۲؎: یہی صحیح ہے اور باب کی حدیث اس بارے میں نص صریح ہے، اور جو لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
۳؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام جب نماز کو اس کے اول وقت سے دیر کر کے پڑھے تو مقتدی کے لیے مستحب ہے کہ اسے اول وقت میں اکیلے پڑھ لے، ابوداؤد کی روایت میں «صل الصلاة لوقتها فإن أدركتها معهم فصلها فإنها لك نافلة» تم نماز وقت پر پڑھ لو پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی نماز پاؤ تو دوبارہ پڑھ لیا کرو، یہ تمہارے لیے نفل ہو گی، ظاہر حدیث عام ہے ساری نمازیں اس حکم میں داخل ہیں خواہ وہ فجر کی ہو یا عصر کی یا مغرب کی، بعضوں نے اسے ظہر اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے، وہ کہتے ہیں فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہو جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1256)

Share this: