احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

11: باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الرَّمْىِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
باب: اللہ کی راہ (جہاد) میں تیر پھینکنے کی فضیلت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1637
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابي حسين، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله ليدخل بالسهم الواحد ثلاثة الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، والممد به، وقال: ارموا واركبوا، ولان ترموا احب إلي من ان تركبوا، كل ما يلهو به الرجل المسلم باطل إلا رميه بقوسه، وتاديبه فرسه، وملاعبته اهله، فإنهن من الحق ".
عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابن ابی الحسین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: تیر بنانے والے کو جو بناتے وقت ثواب کی نیت رکھتا ہو، تیر انداز کو اور تیر دینے والے کو، آپ نے فرمایا: تیر اندازی کرو اور سواری سیکھو، تمہارا تیر اندازی کرنا میرے نزدیک تمہارے سواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، ہر وہ چیز جس سے مسلمان کھیلتا ہے باطل ہے سوائے کمان سے اس کا تیر اندازی کرنا، گھوڑے کو تربیت دینا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، یہ تینوں چیزیں اس کے لیے درست ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18914) (ضعیف) (اس کی سند میں دو راوی تبع تابعی اورتابعی ساقط ہیں، لیکن ’’ كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلاَّ رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتَهُ أَهْلَهُ ‘‘ والا ٹکڑا اگلی سند سے تقویت پا کر صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2811) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (618) ، وفي صحيح ابن ماجة برقم (2267) ، ضعيف أبي داود (540 / 2513) ، الصحيحة (315) //

سنن ترمذي حدیث نمبر: 1637M
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلام، عن عبد الله بن الازرق، عن عقبة بن عامر الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن كعب بن مرة، وعمرو بن عبسة، وعبد الله بن عمرو، وهذا حديث حسن صحيح.
اس سند سے عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں کعب بن مرہ، عمرو بن عبسہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجہاد 24 (2513)، سنن النسائی/الجہاد 27 (3148)، والخیل 8 (3608)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 19 (2811)، (تحفة الأشراف: 9922)، و مسند احمد (4/146)، سنن الدارمی/الجہاد 14 (2449) (حسن) (اس کے راوی عبد اللہ بن زید الازرق لین الحدیث (مقبول) ہیں، مگر ان کی متابعت خالد بن زید یا یزید نے کی ہے (عند النسائی وابی داود) اس لیے یہ حدیث ’’ حسن لغیرہ ‘‘ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، (نیز اس ٹکڑے کے مزید شواہد کے لیے ملاحظہ ہو: الصحیحة: 315)

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2811) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (618) ، وفي صحيح ابن ماجة برقم (2267) ، ضعيف أبي داود (540 / 2513) ، الصحيحة (315) //

Share this: