احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

60: بَابُ: بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَ الْبَائِعِ
باب: بیچنے والے کے پاس غیر موجود چیز کے بیچنے کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 4615
اخبرنا عمرو بن علي , وحميد بن مسعدة , عن يزيد , قال: حدثنا ايوب , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"لا يحل سلف وبيع , ولا شرطان في بيع , ولا بيع ما ليس عندك".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ۱؎، اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ۲؎، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہ ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع 7 (3504)، سنن الترمذی/البیوع 19 (1234)، سنن ابن ماجہ/التجارات 20 (2188)، (تحفة الأشراف: 8664)، مسند احمد (2/178)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4634، 4635 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار کے ہاتھ آٹھ سو کا سامان ایک ہزار روپے کے بدلے اس شرط پر بیچے کہ بیچنے والا خریدار کو ایک ہزار روپے بطور قرض دے گا (دیکھئیے باب رقم ۷۰) گویا بیع کی اگر یہ شکل نہ ہوتی تو بیچنے والا خریدار کو قرض نہ دیتا اور اگر قرض کا وجود نہ ہوتا تو خریدار یہ سامان نہ خریدتا۔ ۲؎: مثلاً کوئی کہے کہ یہ غلام میں نے تجھ سے ایک ہزار نقد اور دو ہزار ادھار میں بیچا (دیکھئیے باب رقم ۷۲) یہ ایسی بیع ہے جو دو شرطں ہیں یا مثلاً کوئی یوں کہے کہ میں نے تم سے اپنا یہ کپڑا اتنے اتنے میں اس شرط پر بیچا کہ اس کا دھلوانا اور سلوانا میرے ذمہ ہے۔ ۳؎: بیچنے والے کے پاس جو چیز موجود نہیں ہے اسے بیچنے سے اس لیے روک دیا گیا ہے کہ اس میں دھوکہ دھڑی کا خطرہ ہے جیسے کوئی شخص اپنے بھاگے ہوئے غلام یا اونٹ بیچے جب کہ ان دونوں کے واپسی کی ضمانت بیچنے والا نہیں دے سکتا البتہ ایسی چیز کی بیع جو اپنی صفت کے اعتبار سے خریدار کے لیے بالکل واضح ہو جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع سلم کی اجازت دی ہے باوجود یہ کہ بیچی جانے والی چیز بیچنے والے کے پاس بروقت موجود نہیں ہوتی۔ (کیونکہ چیز کے سامنے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے)۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

Share this: