احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

15: بَابُ: الْكَفَّارَةِ قَبْلَ الْحِنْثِ
باب: قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینے کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 3811
اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا حماد، عن غيلان بن جرير، عن ابي بردة، عن ابي موسى الاشعري، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط من الاشعريين نستحمله، فقال: والله لا احملكم وما عندي ما احملكم، ثم لبثنا ما شاء الله، فاتي بإبل فامر لنا بثلاث ذود فلما انطلقنا، قال بعضنا لبعض: لا يبارك الله لنا , اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم نستحمله فحلف ان لا يحملنا. قال ابو موسى: فاتينا النبي صلى الله عليه وسلم فذكرنا ذلك له، فقال:"ما انا حملتكم بل الله حملكم , إني والله لا احلف على يمين فارى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني واتيت الذي هو خير".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اشعریوں کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، ہم آپ سے سواریاں مانگ رہے تھے ۱؎، آپ نے فرمایا: قسم اللہ کی! میں تمہیں سواریاں نہیں دے سکتا، میرے پاس کوئی سواری ہے بھی نہیں جو میں تمہیں دوں، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، اتنے میں کچھ اونٹ لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے تین اونٹوں کا حکم دیا، تو جب ہم چلنے لگے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: اللہ تعالیٰ ہمیں برکت نہیں دے گا۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواریاں طلب کرنے آئے تو آپ نے قسم کھائی کہ آپ ہمیں سواریاں نہیں دیں گے۔ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں: تو ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: میں نے تمہیں سواریاں نہیں دی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں، قسم اللہ کی! میں کسی بات کی قسم کھاتا ہوں، پھر میں اس کے علاوہ کو بہتر سمجھتا ہوں تو میں اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور جو بہتر ہوتا ہے کرتا ہوں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأیمان 1 (6623)، کفارات الأیمان 9 (6718)، صحیح مسلم/الأیمان 3 (1649)، سنن ابی داود/الأیمان 17 (3276)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 7 (2107)، (تحفة الأشراف: 9122)، مسند احمد (4/398) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: سواریوں کا مطالبہ غزوہ تبوک میں شریک ہونے کے لیے کیا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: