احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

53: بَابُ: إِذَا أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ هَلْ يَجْعَلُ مَعَهَا حَجًّا
باب: جب عمرہ کا تلبیہ پکارے تو کیا اس کے ساتھ حج بھی کر سکتا ہے؟
سنن نسائي حدیث نمبر: 2747
اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن نافع، ان ابن عمر اراد الحج عام نزل الحجاج بابن الزبير , فقيل له: إنه كائن بينهم قتال وانا اخاف ان يصدوك، قال: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21، إذا اصنع كما صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم إني اشهدكم اني قد اوجبت عمرة ثم خرج حتى إذا كان بظاهر البيداء، قال: ما شان الحج والعمرة إلا واحد ؟ اشهدكم اني قد اوجبت حجا مع عمرتي، واهدى هديا اشتراه بقديد ثم انطلق يهل بهما جميعا حتى قدم مكة فطاف بالبيت وبالصفا والمروة ولم يزد على ذلك، ولم ينحر، ولم يحلق، ولم يقصر ولم يحل من شيء حرم منه حتى كان يوم النحر فنحر، وحلق، فراى ان قد قضى طواف الحج والعمرة بطوافه الاول وقال ابن عمر: كذلك فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم".
نافع سے روایت ہے کہ جس سال حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر چڑھائی کی، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حج کا ارادہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ ان کے درمیان جنگ ہونے والی ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ آپ کو (حج سے) روک دیں گے تو انہوں نے کہا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ اگر ایسی صورت حال پیش آئی تو میں ویسے ہی کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۱؎ میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ واجب کر لیا ہے پھر چلے، جب بیداء کے پاس پہنچے تو کہا: حج و عمرہ دونوں تو ایک ہی ہیں، میں تم لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب کر لیا ہے، اور ہدی بھی ساتھ لے لی جسے قدید میں خریدا تھا پھر کچھ راستے دونوں (حج و عمرہ) کا تلبیہ پکارتے ہوئے چلے یہاں تک کہ مکہ آ گئے، تو بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی اس سے زیادہ کچھ نہ کیا، نہ قربانی کی، نہ سر منڈایا، نہ بال کتروائے، اور نہ ان چیزوں سے حلال ہوئے جو اس کی وجہ سے ان پر حرام ہوئی تھیں یہاں تک کہ جب ذی الحجہ کی دسویں تاریخ آئی تو انہوں نے نحر کیا (قربانی کیا) سر منڈوایا اور یہ خیال کیا کہ پہلے ہی طواف سے حج و عمرہ دونوں کا طواف ہو گیا ہے۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج 77 (1640)، صحیح مسلم/الحج26 (1230)، (تحفة الأشراف: 8279) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کافروں نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا تو آپ نے وہیں قربانی کر ڈالی تھی، بال منڈوا لیا تھا اور احرام کھول دیا تھا پھر دوسرے سال آپ نے عمرہ کی قضاء کی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: