احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

2: بَابُ: اجْتِنَابِ الشُّبُهَاتِ فِي الْكَسْبِ
باب: کمائی میں شکوک و شبہات سے دور رہنے کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 4458
حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني، قال: حدثنا خالد وهو ابن الحارث، قال: حدثنا ابن عون، عن الشعبي، قال: سمعت النعمان بن بشير، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , فوالله لا اسمع بعده احدا، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:"إن الحلال بين، وإن الحرام بين، وإن بين ذلك امورا مشتبهات"، وربما قال:"وإن بين ذلك امورا مشتبهة"، قال:"وساضرب لكم في ذلك، مثلا إن الله عز وجل حمى حمى، وإن حمى الله عز وجل ما حرم، وإنه من يرتع حول الحمى يوشك ان يخالط الحمى"، وربما قال:"إنه من يرعى حول الحمى يوشك ان يرتع فيه، وإن من يخالط الريبة يوشك ان يجسر".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا (اللہ کی قسم، میں آپ سے سن لینے کے بعد کسی سے نہیں سنوں گا) آپ فرما رہے تھے: حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے، ان دونوں کے بیچ کچھ شبہ والی چیزیں ہیں (یا آپ نے «مشتبہات» کے بجائے «مشتبھۃً» کہا ۱؎) - اور فرمایا: میں تم سے اس سلسلے میں ایک مثال بیان کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے ایک چراگاہ بنائی تو اللہ کی چراگاہ یہ محرمات ہیں، جو جانور بھی اس چراگاہ کے پاس چرے گا قریب ہے کہ وہ اس میں داخل ہو جائے یا یوں فرمایا: جو بھی اس چراگاہ کے جانور پاس چرائے گا قریب ہے کہ وہ جانور اس میں سے میں چر لے۔ اور جو مشکوک کام کرے تو قریب ہے کہ وہ (حرام کام کرنے کی) جرات کر بیٹھے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان 39 (52)، البیوع2 (2051)، صحیح مسلم/البیوع 40 المساقاة 20 (1599)، سنن ابی داود/المساقاة 3 (3329، 3330)، سنن الترمذی/المساقاة 1 (1205)، سنن ابن ماجہ/الفتن 14 (2984)، (تحفة الأشراف: 11624)، مسند احمد (4/267، 269، 270، 271، 274، 275)، سنن الدارمی/البیوع 1 (2573)، ویأتی عند المؤلف فی الأشربة50 (برقم 5713) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: گویا دنیاوی چیزیں تین طرح کی ہیں: حلال، حرام اور مشتبہ (شک و شبہہ والی چیزیں) پس حلال چیزیں وہ ہیں جو کتاب و سنت میں بالکل واضح ہیں جیسے دودھ، شہد، میوہ، گائے اور بکری وغیرہ، اسی طرح حرام چیزیں بھی کتاب و سنت میں واضح ہیں جیسے شراب، زنا، قتل اور جھوٹ وغیرہ اور مشتبہ وہ ہے جو کسی حد تک حلال سے اور کسی حد تک حرام سے، یعنی دونوں سے مشابہت رکھتی ہو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ میں ایک کھجور پڑی ہوئی دیکھی تو فرمایا کہ اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی ہو سکتی ہے تو میں اسے کھا لیتا۔ اس لیے مشتبہ امر سے اپنے آپ کو بچا لینا ضروری ہے، کیونکہ اسے اپنانے کی صورت میں حرام میں پڑنے کا خطرہ ہے، نیز شبہ والی چیز میں پڑتے پڑتے آدمی حرام میں پڑنے اور اسے اپنانے کی جرات و جسارت کر سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: