احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

95: بَابُ: الرَّجُلِ يَبْتَاعُ الْبَيْعَ فَيُفْلِسُ وَيُوجَدُ الْمَتَاعُ بِعَيْنِهِ
باب: سامان خریدنے کے بعد قیمت ادا کرنے سے پہلے آدمی مفلس ہو جائے اور وہ چیز اس کے پاس جوں کی توں موجود ہو تو اس کے حکم کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 4680
اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن يحيى، عن ابي بكر بن حزم، عن عمر بن عبد العزيز، عن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:"ايما امرئ افلس ثم وجد رجل عنده سلعته بعينها , فهو اولى به من غيره".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (سامان خریدنے کے بعد) مفلس ہو گیا، پھر بیچنے والے کو اس کے پاس اپنا مال بعینہ ملا تو دوسروں کی بہ نسبت وہ اس مال کا زیادہ حقدار ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاستقراض 14 (2402)، صحیح مسلم/المساقاة 5 (البیوع 26) (1559)، سنن ابی داود/البیوع76(3519، 3520)، سنن الترمذی/البیوع 26 (1262)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 26 (4358، 2359)، (تحفة الأشراف: 14861)، موطا امام مالک/البیوع 42 (88)، مسند احمد (2/228، 247، 249، 258، 410، 468، 474، 508)، سنن الدارمی/البیوع 51 (2632) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس باب کی احادیث کی روشنی میں علماء نے کچھ شرائط کے ساتھ ایسے شخص کو اپنے سامان کا زیادہ حقدار ٹھہرایا ہے جو یہ سامان کسی ایسے شخص کے پاس بعینہٖ پائے جس کا دیوالیہ ہو گیا ہو، وہ شرائط یہ ہیں: (الف) سامان خریدار کے پاس بعینہٖ موجود ہو۔ (ب) پایا جانے والا سامان اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہو۔ (ج) سامان کی قیمت میں سے کچھ بھی نہ لیا گیا ہو۔ (د) کوئی ایسی رکاوٹ حائل نہ ہو جس سے وہ سامان لوٹایا ہی نہ جا سکے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: