احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: بَابُ: تَحْرِيمِ الدَّمِ
باب: خون کی حرمت کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 3971
اخبرنا هارون بن محمد بن بكار بن بلال، عن محمد بن عيسى وهو ابن سميع , قال: حدثنا حميد الطويل، عن انس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"امرت ان اقاتل المشركين حتى يشهدوا ان لا إله إلا الله وان محمدا عبده ورسوله، فإذا شهدوا ان لا إله إلا الله وان محمدا عبده ورسوله وصلوا صلاتنا، واستقبلوا قبلتنا، واكلوا ذبائحنا فقد حرمت علينا دماؤهم واموالهم إلا بحقها".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں کفار و مشرکین سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، پھر جب وہ گواہی دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور وہ ہماری نماز کی طرح نماز پڑھنے لگیں، ہمارے قبلے کی طرف رخ کریں اور ہمارے ذبیحے کھانے لگیں تو اب ان کے خون اور ان کے مال ہمارے اوپر حرام ہو گئے الا یہ کہ (جان و مال کے) کسی حق کے بدلے میں ہو (تو اور بات ہے) ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 762) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اگر وہ کسی کا مال لے لیں تو اس کے بدلہ میں ان کا مال لیا جائے گا یا کسی کا خون کر دیں تو اس کے بدلے ان کا خون کیا جائے گا یا شادی شدہ زانی ہو تو اس کو رجم (پتھر مار کر ہلاک) کیا جائے گا۔ اس حدیث اور اس مضمون کی آنے والی تمام احادیث (نمبر ۳۹۸۸) کے متعلق یہ واضح رہے کہ ان میں مذکورہ حکم نبوی خاص اس وقت کے جزیرۃ العرب اور اس وقت کے ماحول سے متعلق ہے۔ یہ حکم اتنا عام نہیں ہے کہ ہر مسلمان ہر عہد اور ہر ملک میں اس پر عمل کرنے لگے۔ یا موجودہ دور میں پائی جانے والی کوئی مسلمان نام کی حکومت اس پر عمل کرنے لگے۔ ان احادیث کا صحیح (پس منظر) نہ معلوم ہونے کے سبب ہی اس حکم نبوی کے خلاف واویلا مچایا جاتا ہے، «فافھم وتدبر»۔ مؤلف نے اس کتاب و باب میں اس حدیث کو اس مقصد سے ذکر کیا کہ اگر کوئی شہادتوں کے ساتھ ساتھ مذکورہ شعائر اسلام کو بجا لاتا ہو تو اس کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے، مگر مذکورہ تین صورتوں میں ایسے آدمی کا خون بھی مباح ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: