احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

116: بَابُ: وَضْعِ الْجَرِيدَةِ عَلَى الْقَبْرِ
باب: قبر پر کھجور کی ٹہنی رکھنے کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 2070
اخبرنا محمد بن قدامة , قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بحائط من حيطان مكة او المدينة، سمع صوت إنسانين يعذبان في قبورهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يعذبان وما يعذبان في كبير , ثم قال: بلى كان احدهما لا يستبرئ من بوله، وكان الآخر يمشي بالنميمة"، ثم دعا بجريدة فكسرها كسرتين، فوضع على كل قبر منهما كسرة , فقيل له: يا رسول الله , لم فعلت هذا ؟ قال:"لعله ان يخفف عنهما ما لم ييبسا او إلى ان ييبسا".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ یا مدینہ کے باغات میں سے ایک باغ کے پاس سے گزرے، تو آپ نے دو انسانوں کی آوازیں سنیں جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور انہیں کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے ۱؎، بلکہ ان میں سے ایک اچھی طرح اپنے پیشاب سے پاکی نہیں حاصل کرتا تھا، اور دوسرا چغل خوری ۲؎ کرتا تھا، پھر آپ نے ایک ٹہنی منگوائی (اور) اس کے دو ٹکڑے کئے پھر ان میں سے ہر ایک کی قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا، تو آپ سے سوال کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ نے فرمایا: شاید ان کے عذاب میں نرمی کر دی جائے جب تک یہ دونوں (ٹہنیاں) خشک نہ ہوں۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے «ما لم ييبسا أو أن ييبسا» فرمایا، یا «إلى أن ييبسا» فرمایا۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: 31 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے کا مطلب ہے ان کے خیال میں وہ کوئی بڑا جرم نہیں ورنہ شریعت کی نظر میں تو وہ بڑا جرم تھا، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کبیر سے مراد ہے کہ ان کا ترک کرنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں تھا اگر چاہتا تو آسانی سے اس گناہ سے بچ سکتا تھا۔ ۲؎: دو آدمیوں میں فساد ڈالنے کی نیت سے ایک بات دوسرے تک پہنچانے کا نام چغل خوری ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: