احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

100: بَابُ: صِفَةِ الْوُضُوءِ مِنْ غَيْرِ حَدَثٍ
باب: وضو ٹوٹے بغیر تازہ وضو کس طرح کرے؟
سنن نسائي حدیث نمبر: 130
اخبرنا عمرو بن يزيد، قال: حدثنا بهز بن اسد، قال: حدثنا شعبة، عن عبد الملك بن ميسرة، قال: سمعت النزال بن سبرة، قال: رايت عليا رضي الله عنه صلى الظهر ثم قعد لحوائج الناس،"فلما حضرت العصر، اتي بتور من ماء فاخذ منه كفا فمسح به وجهه وذراعيه وراسه ورجليه، ثم اخذ فضله فشرب قائما". وقال: إن ناسا يكرهون هذا، وقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله، وهذا وضوء من لم يحدث.
عبدالملک بن میسرہ کہتے ہیں کہ میں نے نزال بن سبرہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے یعنی ان کے مقدمات نپٹانے کے لیے بیٹھے، جب عصر کا وقت ہوا تو پانی کا ایک برتن لایا گیا، آپ نے اس سے ایک ہتھیلی میں پانی لیا، پھر اسے اپنے چہرہ، اپنے دونوں بازو، سر اور دونوں پیروں پر ملا ۱؎، پھر بچا ہوا پانی لیا اور کھڑے ہو کر پیا، اور کہنے لگے کہ کچھ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، اور یہ ان لوگوں کا وضو ہے جن کا وضو نہیں ٹوٹا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأشربة 16 (5615، 5616) مختصراً، سنن ابی داود/فیہ 13 (3718)، سنن الترمذی/الشمائل 32 (209)، (تحفة الأشراف: 10293)، مسند احمد 1/78، 120، 123، 139، 144، 153، 159 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی باوضو ہو اور نماز کا وقت آ جائے، اور وہ ثواب کے لیے تازہ وضو کرنا چاہے تو تھوڑا سا پانی لے کر سارے اعضاء پر مل لے تو کافی ہو گا، پورا وضو کرنا اور ہر عضو کے لیے الگ الگ پانی لینا ضروری نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: