احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

78: بَابُ: الْبَيْعِ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ الْفَاسِدُ فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَيَبْطُلُ الشَّرْطُ
باب: بیع میں اگر شرط فاسد ہو تو بیع صحیح ہو جائے گی اور شرط باطل ہو گی۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 4646
اخبرنا قتيبة بن سعيد , قال: حدثنا جرير , عن منصور , عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قالت: اشتريت بريرة فاشترط اهلها ولاءها , فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم , فقال:"اعتقيها , فإن الولاء لمن اعطى الورق", قالت: فاعتقتها , قالت: فدعاها رسول الله صلى الله عليه وسلم , فخيرها من زوجها , فاختارت نفسها , وكان زوجها حرا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو ان کے گھر والوں نے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: اسے آزاد کر دو، کیونکہ ولاء (وراثت) اس کا حق ہے جس نے درہم (روپیہ) دیا ہے، چنانچہ میں نے انہیں آزاد کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور انہیں ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا ۱؎ تو بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی زوجیت میں نہ رہنے کو ترجیح دی، حالانکہ ان کے شوہر آزاد تھے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: 3479 (صحیح) (لیکن ’’ وکان زوجھا حراً ‘‘ کا لفظ شاذ ہے، محفوظ روایت یہی ہے کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے)

وضاحت: ۱؎: یعنی چاہیں تو اس شوہر کی زوجیت میں رہیں جن سے غلامی میں نکاح ہوا تھا، اور چاہیں تو ان کی زوجیت میں نہ رہیں۔ ۲؎: صحیح واقعہ یہ ہے کہ وہ اس وقت غلام تھے، اسی لیے تو بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا گیا، اگر وہ آزاد ہوتے تو بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا ہی نہیں جاتا، (دیکھئیے حدیث رقم ۲۶۱۵ و ۳۴۷۹) اس حدیث کی باب سے مناسبت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء والی شرط کو باطل قرار دے کر باقی معاملہ (بریرہ کی بیع کو) صحیح قرار دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله وكان زوجها حرا فإنه شاذ والمحفوظ أنه كان عبدا

Share this: