احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

26: بَابُ: مَا يُقَالُ فِي التَّشَهُّدِ وَالصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: تشہد اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود (نماز) کے بعد کیا دعا پڑھے؟
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 909
حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي ، حدثني حسان بن عطية ، حدثني محمد بن ابي عائشة ، قال: سمعت ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إذا فرغ احدكم من التشهد الاخير فليتعوذ بالله من اربع: من عذاب جهنم، ومن عذاب القبر، ومن فتنة المحيا والممات، ومن فتنة المسيح الدجال".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص آخری تشہد (تحیات اور درود) سے فارغ ہو جائے تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے: جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، موت و حیات کے فتنے سے، اور مسیح دجال کے فتنے سے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد 25 (588)، سنن ابی داود/الصلاة 184 (983)، سنن النسائی/السہو 64 (1311)، (تحفة الأشراف: 14587)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجنائز 87 (1277)، مسند احمد (2/ 237)، سنن الدارمی/الصلاة 86 (1383) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: زندگی کا فتنہ یہ ہے کہ دنیا میں مشغول ہو کر اللہ سے غافل ہو جائے، یا گناہوں میں مبتلا ہو جائے، اور موت کا فتنہ یہ ہے کہ معاذ اللہ خاتمہ برا ہو، شیطان کے بہکاوے میں آ جائے، کلمہ توحید اخیر وقت نہ پڑھ سکے، اور دجال کا فتنہ تو مشہور ہے، اور اس کا ذکر قیامت کی نشانیوں میں آئے گا ان شاء اللہ تعالیٰ، غرض یہ ہے کہ تشہد اور درود کے بعد یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم وأعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال»، اور بعض روایتوں میں زیادہ ہے: «اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم»، اور بعض روایتوں میں یہ دعاء وارد ہے: «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم»، اور بعض روایتوں میں یہ دعا وارد ہے: اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت»، ان سب دعاؤں میں سے جو دعا چاہے پڑھے، اور جو چاہے دعا کرے اور اللہ سے مانگے، کچھ ممانعت نہیں ہے لیکن پہلے تشہد کی دعائیں پڑھے، پھر جو چاہے مانگے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: