احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

27: بَابُ: ذَهَابِ الأَمَانَةِ
باب: امانت کے ختم ہو جانے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 4053
حدثنا علي بن محمد , حدثنا وكيع , عن الاعمش , عن زيد بن وهب , عن حذيفة , قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثين , قد رايت احدهما وانا انتظر الآخر , قال: حدثنا:"ان الامانة نزلت في جذر قلوب الرجال", قال الطنافسي: يعني: وسط قلوب الرجال , ونزل القرآن , فعلمنا من القرآن وعلمنا من السنة , ثم حدثنا عن رفعها , فقال:"ينام الرجل النومة , فترفع الامانة من قلبه , فيظل اثرها كاثر الكوكب , وينام النومة , فتنزع الامانة من قلبه , فيظل اثرها كاثر المجل , كجمر دحرجته على رجلك فنفط , فتراه منتبرا , وليس فيه شيء", ثم اخذ حذيفة كفا من حصى فدحرجه على ساقه , قال:"فيصبح الناس يتبايعون , ولا يكاد احد يؤدي الامانة , حتى يقال: إن في بني فلان رجلا امينا , وحتى يقال: للرجل ما اعقله واجلده واظرفه , وما في قلبه حبة خردل من إيمان", ولقد اتى علي زمان ولست ابالي ايكم بايعت , لئن كان مسلما ليردنه علي إسلامه , ولئن كان يهوديا , او نصرانيا ليردنه علي ساعيه , فاما اليوم فما كنت لابايع إلا فلانا وفلانا.
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی ۱؎ اور دوسری کا منتظر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بیان فرمایا: امانت آدمیوں کے دلوں کی جڑ میں اتری (پیدا ہوئی)، (طنافسی نے کہا: یعنی آدمیوں کے دلوں کے بیچ میں اتری) اور قرآن کریم نازل ہوا، تو ہم نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق ہم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی رات کو سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی، (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا تو) امانت کا اثر ایک نقطے کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر جب دوسری بار سوئے گا تو امانت اس کے دل سے چھین لی جائے گی، تو اس کا اثر (اس کے دل میں) کھال موٹا ۲؎ ہونے کی طرح رہ جائے گا، جیسے تم انگارے کو پاؤں پر لڑھکا دو تو کھال پھول کر آبلے کی طرح دکھائی دے گی، حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا، پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مٹھی بھر کنکریاں لیں اور انہیں اپنی پنڈلی پر لڑھکا لیا، اور فرمانے لگے: پھر لوگ صبح کو ایک دوسرے سے خرید و فروخت کریں گے، لیکن ان میں سے کوئی بھی امانت دار نہ ہو گا، یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں فلاں امانت دار شخص ہے، اور یہاں تک آدمی کو کہا جائے گا کہ کتنا عقلمند، کتنا توانا اور کتنا ذہین و چالاک ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا، اور مجھ پر ایک زمانہ ایسا گزرا کہ مجھے پروا نہ تھی کہ میں تم میں سے کس سے معاملہ کروں، یعنی مجھے کسی کی ضمانت کی حاجت نہ تھی، اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا اسلام اسے مجھ پر زیادتی کرنے سے روکتا، اور اگر وہ یہودی یا نصرانی ہوتا تو اس کا گماشتہ بھی انصاف سے کام لیتا (یعنی ان کے عامل اور عہدہ دار بھی ایماندار اور منصف ہوتے) اور اب آج کے دن مجھے کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ میں اس سے معاملہ کروں سوائے فلاں فلاں کے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق 35 (6497)، صحیح مسلم/الإیمان 64 (143)، سنن الترمذی/الفتن 17 (2179)، (تحفة الأشراف: 3328)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/383، 384، 403) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا ظہور ہو گیا۔
۲؎: جس سے ایمانداری اور بڑھ گئی، مطلب یہ ہے کہ ایمانداری کی صفت بعض دلوں میں فطری طور پر ہوتی ہے اور کتاب و سنت حاصل کرنے سے اور بڑھ جاتی ہے۔
۳ ؎: جیسے پھوڑا اچھا ہو جاتا ہے، لیکن جلد کی سختی ذرا سی رہ جاتی ہے، اور یہ درجہ اول سے بھی کم ہے، اول میں تو ایک نقطہ کے برابر امانت رہ گئی تھی یہاں اتنی بھی نہ رہی صرف نشان رہ گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: