احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

10: بَابُ: الْجَارِحِ يَفْتَدِي بِالْقَوَدِ
باب: زخمی کرنے والا بدلے میں فدیہ دے تو اس کے حکم کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 2638
حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث ابا جهم بن حذيفة مصدقا فلاجه رجل في صدقته فضربه ابو جهم فشجه، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: القود يا رسول الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"لكم كذا وكذا"فلم يرضوا، فقال:"لكم كذا وكذا"فرضوا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"إني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم"، قالوا: نعم، فخطب النبي صلى الله عليه وسلم فقال:"إن هؤلاء الليثيين اتوني يريدون القود، فعرضت عليهم كذا وكذا ارضيتم"، قالوا: لا، فهم بهم المهاجرون فامر النبي صلى الله عليه وسلم ان يكفوا فكفوا ثم دعاهم فزادهم، فقال:"ارضيتم ؟"قالوا: نعم، قال:"إني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم"، قالوا: نعم، فخطب النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قال:"ارضيتم"، قالوا: نعم. قال ابن ماجة: سمعت محمد بن يحيى يقول: تفرد بهذا معمر لا اعلم رواه غيره.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو مصدق (عامل صدقہ) بنا کر بھیجا، زکاۃ کے سلسلے میں ان کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا، ابوجہم رضی اللہ عنہ نے اسے مارا تو اس کا سر پھٹ گیا، وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور قصاص کا مطالبہ کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تم اتنا اتنا مال لے لو، وہ راضی نہیں ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اتنا اتنا مال (اور) لے لو، تو وہ راضی ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں لوگوں کے سامنے خطبہ دوں، اور تم لوگوں کی رضا مندی کی خبر سناؤں؟ کہنے لگے: ٹھیک ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا: یہ لیث کے لوگ میرے پاس آئے اور قصاص لینا چاہتے تھے، میں نے ان سے اتنا اتنا مال لینے کی پیشکش کی اور پوچھا: کیا وہ اس پر راضی ہیں؟ کہنے لگے: نہیں، (ان کے اس رویہ پر) مہاجرین نے ان کو مارنے پیٹنے کا ارادہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں باز رہنے کو کہا، تو وہ رک گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور کچھ اضافہ کر دیا، اور پوچھا: کیا اب راضی ہیں؟ انہوں نے اقرار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: کیا میں خطبہ دوں اور لوگوں کو تمہاری رضا مندی کی اطلاع دے دوں؟ جواب دیا: ٹھیک ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اور پھر کہا: تم راضی ہو؟ جواب دیا: جی ہاں ۱؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن یحییٰ کو کہتے سنا کہ معمر اس حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہیں، میں نہیں جانتا کہ ان کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات 13 (4534)، سنن النسائی/القسامة 20 (4782)، (تحفة الأشراف: 16636)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/232) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ میں ان کی رضا مندی کی بات اس لئے کہتے تھے تاکہ لوگ گواہ ہو جائیں اور پھر وہ اپنے اقرار سے مکر نہ سکیں چونکہ آپ کو ان کی صداقت پر بھروسہ نہ تھا، اور ایسا ہوا بھی، پہلی بار راضی ہو کر گئے، مگر خطبہ کے وقت کہنے لگے کہ ہم راضی نہیں ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / د 4534 ، ن 4782

Share this: