احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

31: بَابٌ في الصَّلاَةِ عَلَى أَهْلِ الْقِبْلَةِ
باب: اہل قبلہ کی نماز جنازہ ادا کرنا۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1523
حدثنا ابو بشر بكر بن خلف ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: لما توفي عبد الله بن ابي، جاء ابنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اعطني قميصك اكفنه فيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"آذنوني به"، فلما اراد النبي صلى الله عليه وسلم ان يصلي عليه، قال له عمر بن الخطاب: ما ذاك لك، فصلى عليه النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:"انا بين خيرتين، استغفر لهم، او لا تستغفر لهم، فانزل الله عز وجل ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره سورة التوبة آية 84.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب (منافقین کے سردار) عبداللہ بن ابی کا انتقال ہو گیا تو اس کے (مسلمان) بیٹے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اپنا کرتہ دے دیجئیے، میں اس میں اپنے والد کو کفناؤں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس کا جنازہ تیار کر کے) مجھے اطلاع دینا، جب آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: یہ آپ کے لیے مناسب نہیں ہے، بہرحال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی، اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مجھے دو باتوں میں اختیار دیا گیا ہے «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم» (سورة التوبة: 80) تم ان کے لیے مغفرت طلب کرو یا نہ کرو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره» (سورة التوبة: 84) منافقوں میں سے جو کوئی مر جائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز22 (1269)، تفسیرالتوبہ 12 (4670)، 13 (4672)، اللباس 8 (5796)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 2 (2400)، صفات المنافقین 3 (2774)، سنن الترمذی/تفسیر التوبة (3098)، سنن النسائی/الجنائز 40 (1901)، (تحفة الأشراف: 8139)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/18) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: