10: بَابُ: مَنْ نَامَ عَنِ الصَّلاَةِ أَوْ نَسِيَهَا
باب: نماز کے وقت سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو کیا کرے؟
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 698
حدثنا احمد بن عبدة ، انبانا حماد بن زيد ، عن ثابت ، عن عبد الله بن رباح ، عن ابي قتادة ، قال: ذكروا تفريطهم في النوم، فقال: ناموا حتى طلعت الشمس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، فإذا نسي احدكم صلاة، او نام عنها فليصلها إذا ذكرها ولوقتها من الغد"، قال عبد الله بن رباح: فسمعني عمران بن الحصين وانا احدث بالحديث، فقال: يا فتى انظر كيف تحدث، فإني شاهد للحديث مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فما انكر من حديثه شيئا.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے نیند کی وجہ سے اپنی کوتاہی کا ذکر چھیڑا تو انہوں نے کہا: لوگ سو گئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیند میں کوتاہی نہیں ہے، کوتاہی بیداری کی حالت میں ہے، لہٰذا جب کوئی شخص نماز بھول جائے یا اس سے سو جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے، اور اگلے روز اس کے وقت میں پڑھ لے“ ۱؎۔ عبداللہ بن رباح کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے سنا تو کہا: نوجوان! ذرا غور کرو، تم کیسے حدیث بیان کر رہے ہو؟ اس حدیث کے وقت میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا، وہ کہتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے اس میں سے کسی بھی بات کا انکار نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة 11 (437)، (تحفة الأشراف: 12089)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 55 (681)، سنن الترمذی/الصلاة 16 (177)، سنن النسائی/المواقیت 53 (618)، مسند احمد (5/305) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب یاد آئے یا سونے کے بعد جاگتے ہی اسی وقت نماز پڑھ لے، اور دوسرے دن کوشش کرے کہ نماز کو وقت ہی پر پڑھے، نماز سے سستی کی عادت نہ ڈالے، اگرچہ ظاہر لفظ سے ایسا لگتا ہے کہ جاگنے کے بعد پڑھے، اور دوسرے دن اس کے وقت میں بھی پڑھے،لیکن اس کا کوئی قائل نہیں کہ نماز دو بار پڑھی جائے، نیز جو معنی ہم نے بتایا ہے اس کی تائید سنن دار قطنی کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح