احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

20: بَابُ: الشُّرْبِ مِنَ الأَوْدِيَةِ وَمِقْدَارِ حَبْسِ الْمَاءِ
باب: وادیوں سے آنے والے پانی کا استعمال کیسے کیا جائے۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 2480
حدثنا محمد بن رمح ، انبانا الليث بن سعد ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عبد الله بن الزبير ، ان رجلا من الانصار خاصم الزبير عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في شراج الحرة التي يسقون بها النخل، فقال الانصاري: سرح الماء يمر، فابى عليه، فاختصما عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اسق يا زبير، ثم ارسل الماء إلى جارك"، فغضب الانصاري، فقال: يا رسول الله ! ان كان ابن عمتك ؟ فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال:"يا زبير ! اسق، ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر"، قال: فقال الزبير: والله إني لاحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في انفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما سورة النساء آية 65.
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری ۱؎ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حرہ کے نالے کے سلسلے میں جس سے لوگ کھجور کے درخت سیراب کرتے تھے، (ان کے والد) زبیر رضی اللہ عنہ سے جھگڑا کیا، انصاری کہہ رہا تھا: پانی کو چھوڑ دو کہ آگے بہتا رہے، زبیر رضی اللہ عنہ نہیں مانے ۲؎ بالآخر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر (پانی روک کر) اپنے درختوں کو سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو، انصاری نے یہ سنا تو ناراض ہو گیا اور بولا: اللہ کے رسول! وہ آپ کی پھوپھی کے بیٹے ہیں نا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر! اپنے درختوں کو سینچ لو اور پانی روک لو یہاں تک کہ وہ مینڈوں تک بھر جائے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم، میں سمجھتا ہوں کہ آیت کریمہ: «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما» (سورة النساء: 65) سو قسم ہے تیرے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوش نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں، اسی معاملہ میں اتری ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: (15) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: انصاری کا نام اطب تھا، انہوں نے ناسمجھی کی بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایسی بات کہہ دی، کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ایسا گستاخانہ جملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہے تو وہ کافر ہو جائے گا، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ کافر تھا، لیکن یہ قول مرجوح ہے، «‏‏‏‏واللہ اعلم» ‏‏‏‏ ۲؎: کیونکہ ان کا باغ نہر کی جانب اونچائی پر تھا اور انصاری کا ڈھلان پر جس سے زبیر رضی اللہ عنہ کے باغ سے سارا پانی بہہ کر نکل جا رہا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: