احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

173: . بَابُ: مَا جَاءَ فِي قِيامِ شَهْرِ رَمَضَانَ
باب: ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1326
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن بشر ، عن محمد بن عمرو ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من صام رمضان، وقامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اور (اس کی راتوں میں) قیام کیا، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15091)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 28 (37)، لیلة القدر 1 (2014)، صحیح مسلم/المسافرین 25 (759)، سنن ابی داود/الصلاة 318 (1371)، سنن الترمذی/الصوم 1 (683)، سنن النسائی/الصیام 3 (6104)، موطا امام مالک/الصلاة في رمضان 1 (2)، مسند احمد (2/232، 241، 385، 473، 503)، سنن الدارمی/الصوم 54 (1817) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: رمضان میں رات کو عبادت کرنا سنت ہے خواہ اخیر رات میں کرے یا شروع رات میں، اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے نماز فجر تک ہے، اور قیام رمضان تہجد پڑھنے سے ادا ہو جاتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ تراویح ہی پڑھے، تہجد کی طرح آٹھ رکعتیں تراویح کی ادا کرے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی ثابت ہے۔ لیکن جو شخص آخری رات میں تہجد پڑھتا ہو یا پڑھ سکتا ہو تو اس کے حق میں یہی زیادہ افضل و بہتر ہے کہ وہ آخری رات میں پڑھے، اور اگر پہلے نماز تراویح با جماعت پڑھنی ہو، اور آخری رات میں آدمی تنہا ہو، تو باجماعت نماز اس کے لئے افضل اور زیادہ بہتر ہے اس لئے کہ باجماعت پڑھنے والے کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔ بیس رکعت کی مروجہ تراویح پر عوام کی محافظت نے صحیح احادیث سے ثابت گیارہ رکعت تراویح کو ترک کر دیا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ: ۱- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (۱۱) رکعت سے زیادہ نماز تراویح نہیں ادا فرمائی، اور عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو سنت صحیحہ کے مطابق لوگوں کو (۱۱) رکعت تراویح ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا، واضح رہے کہ عہد فاروقی میں رمضان میں لوگوں کے بیس رکعت تراویح پڑھنے کی روایت شاذ اور ضعیف ہے، اور ثقہ راویوں کی اس روایت کے خلاف ہے کہ یہ (۱۱) رکعات تھیں، اور ان کے پڑھانے کا حکم عمر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا، شاذ روایت (یعنی ثقہ راوی کی روایت جس کی ثقات نے مخالفت کی ہو) اگر صحیح بھی ہو جائے تو ثقات یا زیادہ ثقہ راوی کی صحیح اور محفوظ روایت کو لینا، اور اس پر عمل کرنا اولی اور بہتر ہے، کیونکہ یہ عدد میں سنت نبویہ کے مطابق ہے، نیز اس میں یہ بھی نہیں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا، بلکہ لوگوں کا فعل تھا جو اس صحیح روایت کے خلاف تھا جس میں (۱۱) رکعت تراویح پڑھانے کا حکم موجود ہے، اگر یہ فعل عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح اور ثابت بھی ہوتا تو اس پر عمل اور مطابق سنت صحیح روایت پر عمل نہ کرنا ایسا امر نہیں تھا کہ عامل بالحدیث جماعت مسلمین کے گروہ سے خارج ہو جائے جیسا کہ تعصب اور جہالت کے شکار لوگ تصور کرتے ہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ جو بات سمجھی جا سکتی ہے وہ بیس رکعات کے جواز کی ہے، لیکن یہ بات قطعی طور سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس فعل کو کیا، اور جس پر مواظبت فرمائی وہ افضل ہے، اور وہ (۱۱) رکعت ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان کی نماز کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نماز (تراویح و تہجد) نہیں پڑھتے تھے، چار رکعتیں تو ایسی ادا فرماتے کہ جس کے طول اور حسن کے متعلق کچھ نہ پوچھو، پھر چار رکعتیں مزید پڑھتے اس کے طول وحسن کو نہ پوچھو، پھر تین رکعتیں ادا فرماتے (صحیح بخاری، و صحیح مسلم)۔ ان رکعات میں کمی بھی ممکن ہے، حتی کہ صرف ایک رکعت ہی پڑھ لے تو ایسا کر سکتا ہے، اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی دونوں حدیثیں دلیل ہیں، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعت وتر ادا فرماتے تھے؟ تو آپ نے فرمایا کہ چار رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور چھ رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور دس رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور سات رکعات سے کم پر آپ وتر نہیں پڑھتے تھے، اور نہ تیرہ رکعات سے زیادہ پڑھتے تھے (سنن ابی داود، مسند احمد)، اور تیرہ رکعتیں یوں کہ دو رکعتیں عشاء کے بعد کی سنتیں ہیں، یا وہ دو ہلکی رکعتیں جن سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کا افتتاح فرماتے تھے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اس کو راجح قرار دیا ہے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وتر حق ہے، جو چاہے پانچ رکعت وتر پڑھے، جو چاہے تین رکعت، جو چاہے ایک ہی رکعت پڑھے، (طحاوی، ومستدرک الحاکم) یہ بھی واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی (۲۰) رکعت تراویح کا پڑھنا ثابت نہیں ہے، اور بیس رکعت پر اجماع کا جن لوگوں نے دعوی کیا ہے ان کا دعوی باطل ہے، سنت سے ثابت (۱۱) رکعت تراویح کی وجہ سے علماء نے اس سے زائد رکعات پر نکیر کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

Share this: