احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

5: بَابُ: الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ
باب: تہائی مال تک وصیت کرنے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 2708
حدثنا هشام بن عمار ، والحسين بن الحسن المروزي ، وسهل ، قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: مرضت عام الفتح حتى اشفيت على الموت فعادني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: اي رسول الله إن لي مالا كثيرا وليس يرثني إلا ابنتي افاتصدق بثلثي مالي ؟، قال:"لا"، قلت: فالشطر، قال:"لا"، قلت: فالثلث، قال:"الثلث، والثلث كثير ان تترك ورثتك اغنياء خير من ان تتركهم عالة يتكففون الناس".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارا مال ہے، اور ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے، تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر آدھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے کہا: تو ایک تہائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تہائی، حالانکہ یہ بھی زیادہ ہی ہے، تمہارا اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر جانا، انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز 36 (1295)، الوصایا 2 (2742)، 3 (2744)، مناقب الأنصار 49 (3936)، المغازي 77 (4395)، النفقات 1 (5354)، المرضی 13 (5659)، 16 (5668)، الدعوات 43 (6373)، الفرائض 6 (6733)، صحیح مسلم/الوصایا 2 (1628)، سنن ابی داود/الوصایا 2 (2864)، سنن الترمذی/الجنائز 6 (975)، الوصایا 1 (2117)، سنن النسائی/الوصایا 3 (3656)، (تحفة الأ شراف: 3890)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الوصایا 3 (4)، مسند احمد (1/168، 172، 176، 179)، سنن الدارمی/الوصایا 7 (3238) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ وصیت تہائی مال سے زیادہ میں نافذ نہ ہو گی، اور دو تہائی وارثوں کو ملے گا اگرچہ وصیت تہائی سے زیادہ یا کل مال کی ہو، جمہور علماء کا یہی قول ہے، لیکن اگر موصی کا کوئی وارث نہ ہو توثلث مال سے زیادہ کی وصیت درست ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: