احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

61: بَابُ: الْوُقُوفِ بِجَمْعٍ
باب: مزدلفہ میں ٹھہرنے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 3022
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو خالد الاحمر ، عن حجاج ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، قال: حججنا مع عمر بن الخطاب فلما اردنا ان نفيض من المزدلفة، قال:"إن المشركين كانوا يقولون: اشرق ثبير كيما نغير، وكانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس، فخالفهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فافاض قبل طلوع الشمس".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، تو جب ہم نے مزدلفہ سے لوٹنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا: مشرکین کہا کرتے تھے: اے کوہ ثبیر! روشن ہو جا، تاکہ ہم جلد چلے جائیں، اور جب تک سورج نکل نہیں آتا تھا وہ نہیں لوٹتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف کیا، آپ سورج نکلنے سے پہلے ہی مزدلفہ سے چل پڑے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج 100 (1684)، مناقب الأنصار 26 (3838)، سنن ابی داود/الحج 65 (1938)، سنن الترمذی/الحج 60 (896)، سنن النسائی/الحج 213 (3050)، (تحفة الأشراف: 10616)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/14، 29، 39، 42، 50، 52) سنن الدارمی/المناسک 55 (1932) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: جب عرفات سے نویں تاریخ کو لوٹ کر چلے تو راستہ میں مغرب نہ پڑھے بلکہ مغرب اور عشاء دونوں ملا کر عشاء کے وقت میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ مزدلفہ میں آ کر پڑھے، پھر رات مزدلفہ ہی میں گزارے اور صبح ہوتے ہی نماز فجر پڑھ کر سورج نکلنے سے پہلے منیٰ کے لیے روانہ ہو جائے گا، مزدلفہ میں رات کو رہنا سنت ہے، اور جو لوگ مزدلفہ میں رات بسر نہیں کرتے وہ بدعت کا کام کرتے ہیں، جس سے حاکم کو منع کرنا چاہیے اور جو کوئی رات کو مزدلفہ میں نہ رہے اس پر ایک دم لازم ہو گا، ابن خزیمہ اور ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مزدلفہ میں رات کو رہنا رکن ہے، اس صورت میں اس کے ترک سے ان کا حج باطل ہو جائے گا، اور اس کمی کو دم سے نہ دور کیا جا سکے گا، اور رات کو رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدھی رات کے بعد مزدلفہ میں ٹھہرے اگرچہ ایک گھڑی ہی سہی، اگر اس سے پہلے چل دے گا تو اس پر دم لازم ہو گا، لیکن فجر ہونے سے پہلے سے پھر وہاں لوٹ آئے تو دم ساقط ہو جائے گا، بہرحال رات کی نصف ثانی میں تھوڑی دیر فجر تک مزدلفہ میں ٹھہرنا ضروری ہے، (الروضۃ الندیۃ)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: