احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

145: . بَابُ: مَا جَاءَ فِي الْقُنُوتِ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ
باب: نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1241
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن إدريس ، وحفص بن غياث ، ويزيد بن هارون ، عن ابي مالك الاشجعي سعد بن طارق قال: قلت لابي : يا ابت: يا ابت"إنك قد صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابي بكر وعمر وعثمان وعلي هاهنا بالكوفة نحوا من خمس سنين، فكانوا يقنتون في الفجر"، فقال: اي بني، محدث.
ابومالک سعد بن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا: ابا جان! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ابوبکرو عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے اور کوفہ میں تقریباً پانچ سال تک علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے، تو کیا وہ لوگ نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: بیٹے یہ نئی بات ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة 178 (402)، سنن النسائی/التطبیق 32 (1079)، (تحفة الأشراف: 4976)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/472، 6/394) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: خاص خاص موقوں پر فجر کی نماز میں اور دوسری نمازوں میں بھی قنوت پڑھنا مسنون ہے۔ اسے قنوت نازلہ کہتے ہیں۔ جن لوگوں نے قراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے شہید کر دیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف مہینہ بھر قنوت نازلہ پڑھی جیسے کہ آگے حدیث ۱۲۴۳ میں آ رہا ہے۔ طارق رضی اللہ عنہ نے مطلقاً قنوت کو بدعت نہیں کہا بلکہ فجر کی نماز میں قنوت ہمیشہ پرھنے کو بدعت کہا، اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات ایک کام اصل میں سنت ہوتا ہے لیکن اسے غلط طریقے سے انجام دینے سے یا اس کو اس کی اصل حیثیت سے گھٹا دینے سے یا بڑھا دینے کی وجہ سے وہ بدعت بن جاتا ہے، یعنی اس عمل کی وہ خاص کیفیت بدعت ہوتی ہے اگرچہ اصل عمل بدعت نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: