احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

75: بَابُ: التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ
باب: سفر میں نوافل پڑھنے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1071
حدثنا ابو بكر بن خلاد الباهلي ، حدثنا ابو عامر ، عن عيسى بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ، حدثني ابي ، قال: كنا مع ابن عمر في سفر فصلى بنا، ثم انصرفنا معه وانصرف، قال: فالتفت، فراى اناسا يصلون، فقال: ما يصنع هؤلاء ؟ قلت: يسبحون، قال: لو كنت مسبحا لاتممت صلاتي يا ابن اخي، إني صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم"فلم يزد على ركعتين في السفر حتى قبضه الله، ثم صحبت ابا بكر فلم يزد على ركعتين، ثم صحبت عمر فلم يزد على ركعتين، ثم صحبت عثمان فلم يزد على ركعتين، حتى قبضهم الله، والله يقول: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21".
حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ ہم ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک سفر میں تھے، انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہم ان کے ساتھ لوٹے، انہوں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ لوگ نماز پڑھ رہے تھے، پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: سنت پڑھ رہے ہیں، انہوں نے کہا: اگر مجھے نفلی نماز (سنت) پڑھنی ہوتی تو میں پوری نماز پڑھتا، میرے بھتیجے! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا، انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، پھر میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا، تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، پھر میں عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، اور پوری زندگی ان سب لوگوں کا یہی عمل رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دے دی، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة» تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے (سورۃ الاحزاب: ۲۱) ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 11 (1101)، صحیح مسلم/المسافرین 1 (689)، سنن ابی داود/الصلاة 276 (1223)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة 5 (1459)، (تحفة الأشراف: 6693)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/224)، سنن الدارمی/الصلاة 179 (1547) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: تو نماز ایسی عبادت میں بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سنت سے زیادہ پڑھنا مناسب نہ جانا، یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا کمال اتباع ہے، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں بہت سخت تھے، یہاں تک کہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ان مقامات پر ٹھہرتے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرتے تھے، اور وہیں نماز ادا کرتے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے۔ سفر میں نماز کی سنتوں کے پڑھنے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اکثر کا یہ قول ہے کہ اگر پڑھے گا تو ثواب ہو گا، اور خود ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ترمذی کی روایت میں ظہر کی سنتیں پڑھنا منقول ہے، اور بعض علماء کا یہ قول ہے کہ سفر میں صرف فرض ادا کرے، سنتیں نہ پڑھے، ہاں عام نوافل پڑھنا جائز ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اسفار مبارکہ میں فرض نماز سے پہلے یا بعد کی سنتوں کو نہیں پڑھتے تھے، سوائے فجر کی سنت اور وتر کے کہ ان دونوں کو سفر یا حضر کہیں نہیں چھوڑتے تھے، نیز عام نوافل کا پڑھنا آپ سے سفر میں ثابت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: