احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

13: بَابُ: مَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَعَلَى اللَّهِ وَعَلَى رَسُولِهِ
باب: جو قرض یا بےسہارا اولاد چھوڑ جائے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے ذمے ہیں۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 2415
حدثنا احمد بن عمرو بن السرح المصري ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول إذا توفي المؤمن في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه الدين فيسال:"هل ترك لدينه من قضاء ؟"، فإن قالوا: نعم، صلى عليه. وإن قالوا: لا، قال:"صلوا على صاحبكم"فلما فتح الله على رسوله صلى الله عليه وسلم الفتوح قال:"انا اولى بالمؤمنين من انفسهم فمن توفي وعليه دين فعلي قضاؤه، ومن ترك مالا فهو لورثته".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی مومن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں وفات پا جاتا، اور اس کے ذمہ قرض ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے: کیا اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے اس نے کچھ چھوڑا ہے؟ تو اگر لوگ کہتے: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھتے، اور اگر کہتے: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فتوحات عطا کیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں مومنوں سے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہوں، تو جو کوئی وفات پا جائے اور اس پر قرض ہو، تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے، اور جو کوئی مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الفرائض 4 (1619)، سنن النسائی/الجنائز 67 (1965)، (تحفة الأشراف: 15315)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الکفالة 5 (2298)، النفقات 15 (5371)، سنن الترمذی/الجنائز 69 (1070)، حم (2/290، 453)، سنن الدارمی/البیوع 54 (2636) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اسلام کے ابتدائی عہد میں جب مال و دولت کی کمی تھی تو جب کوئی مقروض مرتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ نہ پڑھتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرماتے وہ پڑھ لیتے، پھر جب اللہ تعالی نے فتوحات دیں، اور مال غنیمت ہاتھ آیا تو آپ نے حکم دیا کہ اب جو کوئی مسلمان مقروض مرے اس کا قرضہ میں ادا کروں گا، اسی طرح بے سہارا بال بچے چھوڑ جائے تو ان کی پرورش کا ذمہ بھی میر ے سر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: