احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

97: بَابُ: مَا جَاءَ فِي الأَذَانِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کے دن اذان کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1135
حدثنا يوسف بن موسى القطان ، حدثنا جرير . ح وحدثنا عبد الله بن سعيد ، حدثنا ابو خالد الاحمر جميعا، عن محمد بن إسحاق ، عن الزهري ، عن السائب بن يزيد ، قال:"ما كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم إلا مؤذن واحد إذا خرج اذن، وإذا نزل اقام، وابو بكر، وعمر كذلك، فلما كان عثمان، وكثر الناس زاد النداء الثالث على دار في السوق يقال لها الزوراء، فإذا خرج اذن وإذا نزل اقام".
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف ایک ہی مؤذن تھے ۱؎، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ کے لیے) نکلتے تو وہ اذان دیتے، اور جب منبر سے اترتے تو اقامت کہتے، ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں بھی ایسا ہی تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور لوگ زیادہ ہو گئے، تو انہوں نے زوراء نامی ۲؎ بازار میں ایک مکان پر، تیسری اذان کا اضافہ کر دیا، چنانچہ جب عثمان رضی اللہ عنہ (خطبہ دینے کے لیے) نکلتے تو مؤذن (دوبارہ) اذان دیتا، اور جب منبر سے اترتے تو تکبیر کہتا ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة 21 (912)، 22 (913)، 24 (915)، 25 (916)، سنن ابی داود/الصلاة 225 (1088، 1090)، سنن الترمذی/الصلاة 255 (516)، سنن النسائی/الجمعة 15 (1393، 1394)، (تحفة الأشراف: 3799)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/449، 450) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی جمعہ کے دن کے لئے ایک ہی مؤذن تھا، اب یہ اعتراض نہ ہو گا کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن تھے، کیونکہ وہ صرف فجر کی اذان دیا کرتے تھے، بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے بعد، اور ابو محذورہ رضی اللہ عنہ مکہ میں اذان دیتے تھے، اور سعد القرظ قبا میں اذان دیتے تھے، اور حارث صدائی کبھی کبھی سفر وغیرہ میں اذان دیا کرتے تھے، انہوں نے صرف اذان سیکھی تھی۔ ۲؎: زوراء: مدینہ کے ایک بازار کا نام تھا۔ ۳؎:تکبیر کو شامل کر کے یہ تیسری اذان ہوئی، اور یہ ترتیب میں پہلی اذان ہے جو خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کی سنت ہے، دوسری اذان اس وقت ہو گی جب امام خطبہ دینے کے لئے منبر پر بیٹھے گا، اور تیسری اذان، اقامت (تکبیر) ہے، اگر کوئی اذان اور اقامت ہی پر اکتفا کرے تو اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے سنت کی اتباع کی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: