احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

72: بَابُ: إِتْمَامِ الصَّلاَةِ
باب: نماز کو مکمل طور پر ادا کرنے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1060
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير ، عن عبيد الله بن عمر ، عن سعيد بن ابي سعيد ، عن ابي هريرة ، ان رجلا دخل المسجد، فصلى ورسول الله صلى الله عليه وسلم في ناحية من المسجد، فجاء، فسلم فقال"وعليك، فارجع فصل، فإنك لم تصل"، فرجع فصلى، ثم جاء، فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فقال:"وعليك فارجع فصل، فإنك لم تصل بعد"، قال في الثالثة: فعلمني يا رسول الله، قال:"إذا قمت إلى الصلاة فاسبغ الوضوء، ثم استقبل القبلة، وكبر، ثم اقرا ما تيسر معك من القرآن، ثم اركع حتى تطمئن راكعا، ثم ارفع حتى تطمئن قائما، ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا، ثم ارفع راسك حتى تستوي قاعدا، ثم افعل ذلك في صلاتك كلها".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے، اس نے آ کر آپ کو سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ دوبارہ نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی، وہ واپس گیا اور اس نے پھر سے نماز پڑھی، پھر آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ پھر سے نماز پڑھو، تم نے ابھی بھی نماز نہیں پڑھی، آخر تیسری مرتبہ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز کا ارادہ کرو تو کامل وضو کرو، پھر قبلے کی طرف منہ کرو، اور «الله أكبر» کہو، پھر قرآن سے جو تمہیں آسان ہو پڑھو، پھر رکوع میں جاؤ یہاں تک کہ پورا اطمینان ہو جائے، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھاؤ، اور پورے اطمینان کے ساتھ قیام کرو، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں مطمئن ہو جاؤ، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے بیٹھ جاؤ، پھر اسی طرح اپنی ساری نماز میں کرو ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاستئذان 81 (6251)، الأیمان والنذور 15 (6667)، صحیح مسلم/الصلاة 11 (397) سنن ابی داود/الصلاة 8 14 (856)، سنن الترمذی/الصلاة 111 (2692)، (تحفة الأشراف: 12983)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الافتتاح 7 (885)، التطبیق 15 (1054)، السہو 66 (1314)، مسند احمد (2/7 43) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث «مسيء الصلاة» کے نام سے اہل علم کے یہاں مشہور ہے، اس لئے کہ صحابی رسول خرباق رضی اللہ عنہ نے یہ نماز اس طرح پڑھی تھی جس میں ارکان نماز یعنی قیام، رکوع اور سجود وغیرہ کو اچھی طرح نہیں ادا کیا تھا جس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی، اور نماز کی یہ تفصیل بیان کی، یعنی ساری نماز کو اسی طرح اطمینان اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کرنے کی ہدایت کی، ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ اس شخص نے ہلکی نماز پڑھی تھی، اور رکوع اور سجدے کو پورا نہیں کیا تھا، اس حدیث سے صاف معلوم ہوا ہے کہ نماز میں تعدیل ارکان یعنی اطمینان کے ساتھ رکوع، سجود اور قومہ و جلسہ ادا کرنا فرض ہے، جب ہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے نماز ادا نہیں کی۔ ائمہ حدیث نیز امام شافعی، امام احمد، اور امام ابو یوسف وغیرہم نے یہ اور اس طرح کی دوسری احادیث کے پیش نظر تعدیل ارکان کو فرض اور واجب کہا ہے، اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد نے تعدیل ارکان کو فرض نہیں کہا، بلکہ کرخی کی روایت میں واجب کہا ہے، اور جرجانی کی روایت میں سنت کہا ہے، وجوب اور فرضیت کے قائلین کا استدلال یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں جتنی باتیں بتائی ہیں وہ سب کی سب یا شروط نماز میں سے ہیں جیسے وضو، استقبال قبلہ، یا فرائض و واجبات میں سے، جیسے تکبیر تحریمہ، قرأت فاتحہ، وغیرہ وغیرہ، اور اگر یہ اعمال فرض نہ ہوتے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی کو بار بار نماز ادا کرنے کے لئے کیوں حکم دیتے؟ اور یہ فرماتے کہ ابھی تمہاری نماز نہیں ہوئی، یہ اور اس طرح کی احادیث کی روشنی میں تعدیل ارکان کو فرض اور واجب کہنے والے ائمہ کا مسلک صحیح اور راجح ہے، اس کے مقابل میں صرف ان چیزوں کو سنت کہنے والے ائمہ کے اتباع اور مقلدین کے طریقہ نماز کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کافی ہے کہ خشوع و خضوع اور تعدیل ارکان کی کتنی اہمیت ہے، اور اس کے مقابل میں سب سے اہم عبادت کو اس طرح ادا کرنا کہ کسی طور پر بھی اطمئنان نہ ہو بس جلدی جلدی ٹکریں مار لی جائیں، یہ بعینہ وہی نماز ہو جائے گی جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی سے فرمایا کہ تم نے نماز ہی نہیں ادا کی اس لئے دوبارہ نماز ادا کرو، «والله الهادي إلى الصواب» .

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: