احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

4: بَابُ: الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ
باب: سخت گرمی ہو تو ظہر کو ٹھنڈا کر کے (یعنی تاخیر سے) پڑھنے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 677
حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا مالك بن انس ، حدثنا ابو الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إذا اشتد الحر فابردوا بالصلاة، فإن شدة الحر من فيح جهنم".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈی کر لو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تقرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13862)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الموا قیت 9 (533)، صحیح مسلم/المساجد 32 (615)، سنن ابی داود/الصلا ة 4 (402)، سنن الترمذی/الصلاة 5 (157)، سنن النسائی/المواقیت 5 (501)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 7 (28)، مسند احمد (2/229، 238، 256، 266، 348، 377، 393، 400، 411، 462)، سنن الدارمی/الرقاق 119 (2887) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: ظہر کو جلدی نہ پڑھنے اور باقی نماز کو اول وقت میں پڑھنے کی افضلیت کے سلسلہ میں جو روایتیں آئی ہیں، وہ باہم معارض نہیں ہیں کیونکہ اول وقت میں پڑھنے والی روایتیں عام یا مطلق ہیں، اور ظہر کو ٹھنڈا کر کے ادا کرنے والی روایت مخصوص اور مقید ہے، اور عام و خاص میں کوئی تعارض نہیں ہوتا، نہ ہی مطلق و مقید میں کوئی تعارض ہوتا ہے، رہی خباب رضی اللہ عنہ والی روایت جو صحیح مسلم میں آئی ہے، اور جس کے الفاظ یہ ہیں: «شكونا إلى النبي صلى الله عليه وسلم حرالرمضائ فلم يشكنا» ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دھوپ کی تیزی کی شکایت کی لیکن آپ نے ہماری شکایت نہ مانی تو «ابراد» سے قدر زائد کے مطالبہ پر محمول کی جائے گی، کیونکہ «ابراد» یہ ہے کہ ظہر کی نماز کو اس قدر مؤخر کیا جائے کہ دیواروں کا اتنا سایہ ہو جائے جس میں چل کر لوگ مسجد آ سکیں، اور گرمی کی شدت کم ہو جائے، اور «ابراد» سے زائد تاخیر یہ ہے کہ «رمضاء» کی گرمی زائل ہو جائے، اور یہ کبھی کبھی خروج وقت کو مستلزم ہو سکتا ہے، اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے اس مطالبہ کو قبول نہیں کیا، نیز بہت سے علماء نے اس حدیث کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ جب شدت کی گرمی ہو تو ظہر میں دیر کرنا مستحب ہے، اور اس حدیث کی شرح میں مولانا وحید الزماں حیدر آبادی فرماتے ہیں: حدیث کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جب گرمی کی شدت ہو تو اس کو نماز سے ٹھنڈا کرو، اس لئے کہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے، اور جہنم کی بھاپ بجھانے کے لئے نماز سے بہتر کوئی عمل نہیں ہے، اور اس مطلب پر یہ تعلیل صحیح ہو جائے گی، اور یہ حدیث اگلے باب کی حدیثوں کے خلاف نہ رہے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: