احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

65: بَابُ: ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور تدفین کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1627
حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو معاوية ، عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، عن ابن ابي مليكة ، عن عائشة ، قالت: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابو بكر، عند امراته ابنة خارجة بالعوالي، فجعلوا يقولون: لم يمت النبي صلى الله عليه وسلم، إنما هو بعض ما كان ياخذه عند الوحي، فجاء ابو بكر فكشف عن وجهه وقبل بين عينيه، وقال: انت اكرم على الله من ان يميتك مرتين قد، والله مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمر في ناحية المسجد، يقول: والله ما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا يموت حتى يقطع ايدي اناس من المنافقين كثير، وارجلهم، فقام ابو بكر فصعد المنبر، فقال:"من كان يعبد الله، فإن الله حي لم يمت، ومن كان يعبد محمدا فإن محمدا قد مات، وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل افإن مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين سورة آل عمران آية 144"، قال عمر: فلكاني لم اقراها إلا يومئذ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کے ساتھ جو کہ خارجہ کی بیٹی تھیں عوالی مدینہ میں تھے، لوگ کہنے لگے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا بلکہ وحی کے وقت جو حال آپ کا ہوا کرتا تھا ویسے ہی ہو گیا ہے، آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، آپ کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا، اور کہا: آپ اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ معزز و محترم ہیں کہ آپ کو دو بار موت دے ۱؎، قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں، اس وقت عمر رضی اللہ عنہ مسجد کے ایک گوشہ میں یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرے نہیں ہیں، اور نہ آپ مریں گے، یہاں تک کہ بہت سے منافقوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹیں گے، آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، منبر پر چڑھے اور کہا: جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے، مرا نہیں، اور جو کوئی محمد کی عبادت کرتا تھا تو محمد وفات پا گئے، (پھر یہ آیت پڑھی): «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين» (سورة آل عمران: 144) محمد صرف ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول آئے، اگر آپ کا انتقال ہو جائے یا قتل کر دئیے جائیں، تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے، اور جو پھر جائے گا وہ اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گا، اور اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس دن سے پہلے کبھی اس آیت کو میں نے پڑھا ہی نہیں تھا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز 3 (1241)، المغازي 83 (4452)، سنن النسائی/الجنائز 11 (1842)، (تحفة الأشراف: 6632)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/117) (صحیح) (البانی صاحب کہتے ہیں کہ وحی کے جملہ کے علاوہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: یہ کہہ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کا رد کیا جو کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر دنیا میں لوٹ کر آئیں گے، اور منافقوں کے ہاتھ پیر کاٹیں گے کیونکہ اگر ایسا ہو تو اس کے بعد پھر وفات ہو گی، اس طرح دو موتیں جمع ہو جائیں گی۔ اور بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ ہو گی، ایک دنیا کی موت تھی جو ہر بشر کو لازم تھی وہ آپ کو بھی ہوئی نیز اس کے بعد پھر آپ کو راحت ہی راحت ہے۔ اور بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ آپ کا نام اور آپ کا دین ہمیشہ قائم رہے گا،کبھی ختم ہونے والا نہیں، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کا بوسہ لینا جائز ہے، اور میت کو موت کے بعد ایک چادر سے ڈھانپ دینا چاہئے تاکہ لوگ اس کی صورت دیکھ کر گھبرائیں نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة الوحي

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ عبدالرحمٰن بن أبي بكر المليكي : ضعيف (ت 2879) وأصل الحديث صحيح ۔ أخرجه البخاري (1241 ، 1242) وغيره نحوه بإختلاف يسير ۔

Share this: