احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

73: بَابُ: الْوُضُوءِ عَلَى الطَّهَارَةِ
باب: وضو پر وضو کرنے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 512
حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ ، حدثنا عبد الرحمن بن زياد ، عن ابي غطيف الهذلي ، قال: سمعت عبد الله بن عمر بن الخطاب في مجلسه في المسجد، فلما حضرت الصلاة قام فتوضا وصلى، ثم عاد إلى مجلسه، فلما حضرت العصر قام فتوضا وصلى، ثم عاد إلى مجلسه، فلما حضرت المغرب قام فتوضا وصلى، ثم عاد إلى مجلسه، فقلت: اصلحك الله افريضة ام سنة الوضوء عند كل صلاة ؟ قال: او فطنت إلي، وإلى هذا مني، فقلت: نعم، فقال: لا، لو توضات لصلاة الصبح لصليت به الصلوات كلها ما لم احدث، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:"من توضا على كل طهر فله عشر حسنات"، وإنما رغبت في الحسنات.
‏‏‏‏ ابوغطیف ہذلی کہتے ہیں کہ میں نے مسجد میں عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے ان کی مجلس میں سنا، پھر جب نماز کا وقت ہوا، تو وہ اٹھے وضو کیا، اور نماز ادا کی، پھر مجلس میں دوبارہ حاضر ہوئے، پھر جب عصر کا وقت آیا تو اٹھے وضو کیا، اور نماز پڑھی، پھر اپنی مجلس میں واپس آئے، پھر جب مغرب کا وقت ہوا تو اٹھے وضو کیا، اور نماز ادا کی پھر اپنی مجلس میں دوبارہ حاضر ہوئے تو میں نے کہا: اللہ آپ کو سلامت رکھے، کیا یہ وضو (ہر نماز کے لیے) فرض ہے یا سنت؟ کہا: کیا تم نے میرے اس کام کو سمجھ لیا اور یہ سمجھا ہے کہ یہ میں نے اپنی طرف سے کیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، بولے: نہیں، (ہر نماز کے لیے وضو کرنا فرض نہیں) اگر میں نماز فجر کے لیے وضو کرتا تو اس سے وضو نہ ٹوٹنے تک ساری نماز پڑھتا، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس شخص نے وضو ہوتے ہوئے وضو کیا، تو اس کے لیے دس نیکیاں ہیں، اور مجھ کو ان نیکیوں ہی کا شوق ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/لطہارة 32 (62)، سنن الترمذی/الطہارة 44 (59)، (تحفة الأشراف: 859، ومصباح الزجاجة: 212) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں ابو غطیف مجہول و عبد الرحمن بن زیاد افریقی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: /9)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / د 62 ، ت 59

Share this: