احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

سنن ابن ماجه
10: بَابٌ في الْقَدَرِ
باب: قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 76
حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، ومحمد بن فضيل ، وابو معاوية . ح وحدثنا علي بن ميمون الرقي ، حدثنا ابو معاوية ، ومحمد بن عبيد ، عن الاعمش ، عن زيد بن وهب ، قال: قال عبد الله بن مسعود ، حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو الصادق المصدوق، انه يجمع خلق احدكم في بطن امه اربعين يوما، ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يبعث الله إليه الملك فيؤمر باربع كلمات، فيقول:"اكتب عمله، واجله، ورزقه، وشقي ام سعيد"فوالذي نفسي بيده، إن احدكم ليعمل بعمل اهل الجنة حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع، فيسبق عليه الكتاب، فيعمل بعمل اهل النار فيدخلها، وإن احدكم ليعمل بعمل اهل النار حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع، فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل اهل الجنة فيدخلها".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو صادق و مصدوق (یعنی جو خود سچے ہیں اور سچے مانے گئے ہیں) نے بیان کیا کہ پیدائش اس طرح ہے کہ تم میں سے ہر ایک کا نطفہ خلقت ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رکھا جاتا ہے، پھر وہ چالیس دن تک جما ہوا خون رہتا ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس چار باتوں کا حکم دے کر ایک فرشتہ بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس فرشتہ سے کہتا ہے: اس کا عمل، اس کی مدت عمر، اس کا رزق، اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی جنت والوں کا عمل کر رہا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس پر اس کا مقدر غالب آ جاتا ہے (یعنی لکھی ہوئی تقدیر غالب آ جاتی ہے)، اور وہ جہنم والوں کا عمل کر بیٹھتا ہے، اور اس میں داخل ہو جاتا ہے، اور تم میں سے کوئی جہنم والوں کا عمل کر رہا ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، کہ اس پر لکھی ہوئی تقدیر غالب آ جاتی ہے، اور وہ جنت والوں کا عمل کرنے لگتا ہے، اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3208)، الانبیاء 1 (3332)، القدر 1 (6594)، التوحید 28 (7454)، صحیح مسلم/القدر1 (2643)، سنن ابی داود/السنة 17 (4708)، سنن الترمذی/القدر 4 (2137)، (تحفة الأشراف: 9228)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/382، 414، 430) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمل، اجل (عمر) رزق اور سعادت و شقاوت (خوش نصیبی، اور بدنصیبی) یہ سب تقدیر سے ہے، اور اس کو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے حق میں پہلے ہی لکھ دیا ہے، اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، اس لئے ہر آدمی کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت و اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق کرکے تقدیر کو اپنے حق میں مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  «وأن ليس للإنسان إلا ما سعى»۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: