احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

142: . بَابُ: مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ
باب: مرض الموت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1235
حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الارقم بن شرحبيل ، عن ابن عباس ، قال: لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم مرضه الذي مات فيه كان في بيت عائشة، فقال:"ادعوا لي عليا"، قالت عائشة: يا رسول الله، ندعو لك ابا بكر ؟، قال:"ادعوه"، قالت حفصة: يا رسول الله، ندعو لك عمر ؟ قال:"ادعوه"، قالت ام الفضل: يا رسول الله، ندعو لك العباس ؟، قال:"نعم، فلما اجتمعوا رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه، فنظر فسكت"، فقال عمر: قوموا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم جاء بلال يؤذنه بالصلاة، فقال:"مروا ابا بكر فليصل بالناس"، فقالت عائشة: يا رسول الله، إن ابا بكر رجل رقيق حصر، ومتى لا يراك يبكي، والناس يبكون، فلو امرت عمر يصلي بالناس، فخرج ابو بكر فصلى بالناس،"فوجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفسه خفة، فخرج يهادى بين رجلين ورجلاه تخطان في الارض، فلما رآه الناس سبحوا بابي بكر، فذهب ليستاخر، فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم اي مكانك، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس عن يمينه، وقام ابو بكر، فكان ابو بكر ياتم بالنبي صلى الله عليه وسلم، والناس ياتمون بابي بكر"، قال ابن عباس:"واخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم من القراءة من حيث كان بلغ ابو بكر"، قال وكيع: وكذا السنة، قال: فمات رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه ذلك.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی، اس وقت آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی (رضی اللہ عنہ) کو بلاؤ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں بلاؤ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا دیں؟ آپ نے فرمایا: بلا دو، ام الفضل نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم عباس کو بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں جب سب لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا، اور خاموش رہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ جاؤ ۱؎، پھر بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی ہیں، پڑھنے میں ان کی زبان رک جاتی ہے، اور جب آپ کو نہ دیکھیں گے تو رونے لگیں گے، اور لوگ بھی رونا شروع کر دیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں (تو بہتر ہو)، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نکلے، اور انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں پر ٹیک دے کر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے، جب لوگوں نے آپ کو آتے دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو «سبحان الله» کہا، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف آئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دائیں جانب بیٹھ گئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے رہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر رہے تھے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت وہاں سے شروع کی جہاں تک ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے تھے ۲؎۔ وکیع نے کہا: یہی سنت ہے، راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی مرض میں انتقال ہو گیا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5358، ومصباح الزجاجة: 434)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/231، 232، 343، 355، 356، 357) (حسن) (سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے علی کے ذکر کے ساتھ یہ ضعیف ہے، لیکن دوسری حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)

وضاحت: ۱؎: کیوں کہ بیماری کی وجہ سے آپ کو ہمارے بیٹھنے سے تکلیف ہو گی۔ ۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنی مرضی سے بلایا تھا، لیکن بیویوں کے اصرار سے اور لوگوں کو بھی بلا لیا تاکہ ان کا دل ناراض نہ ہو، اور چونکہ بہت سے لوگ جمع ہو گئے اس لئے آپ دل کی بات نہ کہنے پائے، اور سکوت فرمایا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور صحابہ پر ثابت ہوئی کہ آپ نے نماز کی امامت کے لئے ان کو منتخب فرمایا، اور امامت صغری قرینہ ہے امامت کبری کا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعت میں شریک ہونا کیسا ضروری ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیماری اور کمزوری کے باوجود حجرہ سے باہر مسجد تشریف لائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن دون ذكر علي

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ أبو إسحاق عنعن (تقدم:46) وللحديث شاهد ضعيف عند أحمد (209/1) والخبر مخالف لحديث البخاري (687)

Share this: